رسائی کے لنکس

امریکہ مٰیں بھارت کا یوم آزادی اور ’بابا کا بلڈوزر‘


بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا جھنڈا (فائل)
بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا جھنڈا (فائل)

پاکستان اور بھارت کے یوم آزادی پر امریکہ بھر میں پاکستانی اور بھارتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے مختلف شہروں میں تقاریب اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ بعض ایسی بھی تقاریب تھیں جہاں دونوں ملکوں سے محبت کرنے والوں نے مل کر جشن منایا مگرزیادہ تر اجتماعات علیحدہ منعقد کیے گیے۔

14 اگست اتوار کے روز ریاست نیو جرسی کے علاقے ایڈیسن میں بھی انڈین بزنس ایسوسی ایشن، نیو جرسی کی جانب سے بھارت کے یوم آزادی پر ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف علامتوں کے ذریعے وطن سے محبت کا اظہار کیا گیا۔ اس ریلی کے گرینڈ مارشل دہلی سے تعلق رکھنے والے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی ترجمان سمبت پٹرا تھے۔

اس پریڈ میں ایک بلڈوزر بھی شامل تھا جس پر بھارتی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ جہاں اس بلڈوزر کے ساتھ کئی لوگ جاپ کرتے نظر آئے وہیں اس کی موجودگی بہت سے بھارتی نژاد مسلمانوں کے غم وغصے کا باعث بھی بنی۔ سوشل میڈیا پر اس بلڈوزر کی تصاویر کئی بار شیئر کی گئیں جن پر ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آیا۔

امریکی ادارے پی بی ایس سے وابستہ صحافی زیبا وارثی نے بھی ایک وڈیو اپنے سوشل میڈیا پر لگائی جسے سینکڑوں بار شیئر کیا گیا۔

زیبا نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ نیو جرسی میں بھارت کے یوم آزادی سے منسوب اس پریڈ میں بلڈوزر کا ہونا بھارت کے مسلمانوں کے خلاف تعصب کی علامت ہے۔

ان کے بقول اس سال کے اوائل میں یہی بلڈوزر تھے جن کو بھارت میں مسلمانوں کے گھروں اور کاروبار کی جگہوں کو مسمار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا جو بظاہر ان کے احتجاج پر ردعمل کی ایک شکل تھی۔

سوال یہ ہے کہ تعمیراتی کاموں کے لیے استعمال ہونے والا بلڈوزر ایک آزادی مارچ میں کیا کر رہا تھا اور اس کی موجودگی بعض کے لیے خوشی اور کچھ کے لیے غصے کا باعث کیوں بنی؟ اس کا کچھ پس منظر جان لیں۔

بھارتی سیاست میں بلڈوزر کا کردار

ویسے تو بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی کا انتخابی نشان کنول کا پھول ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے مخالفین کی املاک کو نقصان پہچانے کی وجہ سے اب یہ بلڈوزرز ، نقادوں کے نزدیک، علامتی نشان بن گیا ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کو اسی بلڈوزر کی وجہ سے بلڈوزر بابا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اور یہ کچھ ہی عرصہ پہلے ہونے والے ریاستی انتخابات میں ان کی انتخابی مہم کا بھی خاص حصہ رہ چکا ہے۔

دائیں بازو کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی یوگی ادتیا ناتھ حکومت میں گزشتہ کئی ماہ کے دوران بہت سے کاروباروں اور مکانات کو مسمار کیا گیا جن کے مالکان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مسلمان اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے مودی حکومت کی مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور دیوار سے لگانے کی کوشش قرار دیتی ہیں جبکہ حکومتی موقف ہے کہ صرف انہی املاک کو مسمار کیا جارہا ہے جو غیر قانونی طور پر سرکاری زمین ہتھیا کر تعمیر کی گئی ہیں یہ ایک ایسا الزام جسے ان املاک کے بیشتر مالکان غلط قرار دیتے ہیں۔

نقادوں کے مطابق انہدام کی یہ کاروائیاں اکثر اہم موقعوں کے بعد حکومتی رد عمل کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ اپریل کے مہینے میں دہلی کے علاقے جہانگیرپوری میں ہنومان جینتی کے جلوس میں ہندو مسلم فساد کے تین روز بعد ہی سرکاری بلڈوزرز اس علاقے میں املاک مسمار کرتے نظر آئے۔حکومت اس اقدام کو تجاوازت کے خلاف مہم کا حصہ قرار دیتی ہے لیکن علاقے کے مسلمانوں کا کہنا تھا کہ اس میں صرف مسلمانوں کی ہی املاک اور مسجد کو کیوں نقصان پہنچایا گیاَ جبکہ چند ہی قدم پر موجود مندر اور ہندوؤں کی املاک محفوظ رہیں۔

الہ آباد میں ایک مقامی رہنما جاوید احمد کے گھر کو بلڈوزر سے گرایا جا رہا ہے جو بی جے پی کی ایک خاتون رہنما کی جانب سے اہانت آمیز بیان پر احتجاج میں پیش پیش تھے۔ (اے ایف پی)
الہ آباد میں ایک مقامی رہنما جاوید احمد کے گھر کو بلڈوزر سے گرایا جا رہا ہے جو بی جے پی کی ایک خاتون رہنما کی جانب سے اہانت آمیز بیان پر احتجاج میں پیش پیش تھے۔ (اے ایف پی)

اسی طرح جون کے مہینے میں، رپورٹوں کے مطابق، بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو رہنماؤں کی جانب سے پیغمبر اسلام کے حوالے سے متنازعہ بیان پر جمعے کی نماز کے بعد ہونے والے احتجاج کے اگلے روز ہی بھارتی شہر پرگیا راج میں مظاہروں میں شریک بعض شرکا کے گھربلڈوزرز سے مسمار کیے گئے۔ حکومت کا کہنا ایک بار پھر یہی تھا کی یہ املاک حکومتی زمین پر بنائی گئی تھیں تاہم وزیر اعلیٰ ادتیا ناتھ کے میڈیا ایڈوائزرمرتیونجے کمار نے اسی روز انہدام کی ایک تصویر اپنے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ' یاد رکھو! ہر جمعے کے بعد ہفتہ کا روز آتا ہے'۔

بھارتی طالبعلم اور حقوق کی کارکن آفرین فاطمہ کا، جن کا گھر بھی پرگیاراج احتجاج کے اگلے روز مسمار ہوا تھا، ایک اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ یہ احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائی تھی جو ٹی وی پر لائیو دکھائی جا رہی تھی جس میں مسلمانوں کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ جو آواز بلند کرے گا وہ اپنا مستقبل دیکھ اور جان لے۔

مختصرا" بلڈوزر بھارت میں اب سیاسی اور مذہبی تقسیم کی علامت بن چکا ہے جسے مسلمان اسے مسلم دشمنی کی نشانی سمجھتے ہیں تو دائیں بازو والے اسے " بلڈوزر کا انصاف" کہتے ہیں۔ یو ٹیوب پر ایک چھوٹی سی سرچ سے "بابا" اور ان کے "بلڈوزر" کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جہاں بابا اور ان کے بلڈوزر پر کئی گانے موجود ہیں جن پر لاکھوں ویوز اور ہزاروں کمنٹس موجود ہیں۔

نیو جرسی میں بلڈوزر پریڈ

نیو جرسی کی انڈیا آزادی ریلی میں اس بلڈوزر پریڈ کے آگے چند افراد ایک بینر اٹھائے موجود تھے جس پر " اوور سیز فرینڈز آف بی جے پی" درج تھا۔ اس ریلی کی تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد 'انڈین امیریکن مسلم کاؤنسل' اور مسلم سول رائٹس ادارے 'کاؤنسل آن امیریکن اسلامک ریلشنز' کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔ ان تنظیموں نے ایڈیسن اور ووڈبرج ٹاؤن شپ کی انتظامیہ اور ریلی میں شرکت کرنے والے نیو جرسی کے سینیٹر اور اسمبلی ممبران اور اسپیکر کریگ جے کاولن سے اس اقدام کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ ان کے نزدیک یہ نفرت آمیز اقدام تھا۔

وائس آف امریکہ طرف سے میئر ایڈیسن، سیم جوشی کو بھیجی گئی ای میل کا تا دم تحریر کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور نہ ہی گوگل پردیے گئے انڈین بزنس ایسوسی ایشن کے فون نمبر سےکوئی جواب موصول ہو سکا ہے۔

نیو جرسی کی رٹگرز یونیورسٹی میں جنوب ایشیائی تاریخ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر آڈری ٹرشکے کا وائس آف امریکہ کی جانب سے کیے گئے سوال پر کہنا ہے کہ "بابا کا بلڈوزر ہندو قوم پرستوں کےمسلمانوں پر تشدد کا جشن ہے" ان کے مطابق ایک ایسے علاقے میں جہاں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے یہ بھارتی نژاد مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے بقول

’’ ہندتوا فکر انتہا پسندی اور تشدد کی حمایت کرتی ہے اور اب سب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ یہ سوچ امریکی سرزمین پربھی پھل پھول رہی ہے۔‘‘

مورخ ڈاکٹرآڈری ٹرشکے
مورخ ڈاکٹرآڈری ٹرشکے

تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر ٹرشکے کا کہنا تھا کہ بھارت کی آزادی کے روح رواں مہاتما گاندھی ہندو انتہا پسندی اور مسلمانوں پر تشدد کے خلاف تھے اس لیے آزادی کے جشن کے نام پر بلڈوزر پریڈ کرنے والوں اور بھارتی مسلمانوں پر تشدد کی حمایت کا جشن آزادی سے کوئی تعلق نہیں، نیو جرسی میں نفرت کو جگہ نہیں دی جاسکتی۔

سکینہ علی ایک طویل عرصے سے ایڈیسن میں مقیم ہیں۔ ان کہنا ہے کہ گو کہ وہ امریکہ ہی میں پیدا ہوئیں اور یہیں پلی بڑھی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی شناخت بھارتی ہی سمجھی ہے۔ ان کا کہنا ہے یہاں اسی کی دہائی میں اسکول میں پڑھتے ہوئے انہیں نسلی تعصب میں کبھی ہندو سمجھا جاتا تھا اور کبھی سکھ اور چونکہ وہ خود کو بھارتی ہی تصور کرتی تھیں انہیں یہ دیکھ اور سن کر دکھ محسوس ہوتا تھا کہ ان کے ہم وطنوں سے نسلی تعصب برتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ ان کی ثقافت، اوڑھنا پہننا، کھانا پینا، تقریباً' ایک جیسا ہے اس لیے کسی دوسرے ملک کے مسلمانوں کے بجائے انہوں نے خود کوہمیشہ بھارتیوں کے ہی قریب سمجھا ہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا ہندو۔

لیکن سکینہ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے روّیے تبدیل ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔ ان کے بقول آج کے ایڈیسن میں ان کے بچوں کے ہندو کلاس فیلوز انہیں پاکستانی سمجھتے ہیں اور اپنی ہندوستانی جڑیں ثابت کرنے کے لیے ان کے بچوں کو بار بار دلیلیں دینا پڑتی ہیں۔ سکینہ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آنے پر صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی۔ ان کے بقول سابق صدر کے مسلمانوں کے خلاف بیانات نے ایسے انتہا پسند اور مسلم مخالف افراد کو تقویت دی جو بظاہر اب تک خاموش تھے۔ سکینہ کا کہنا ہے کہ ایڈیسن کے رہائشی ایک ایسے شخص کو ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ تک پہنچا چکے ہیں جواپنے سوشل میڈیا پر سینٹا کلاز سے لے کر روہنگیا مسلمانوں تک پر تنقید کر چکا ہے، یہ افسوسناک ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سابق صدر ٹرمپ اور ان کے حامی یہ باور کراتے رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ انتہاپسندی اور دہشتگردی کے مخالف ہیں۔

32 سالہ جویریہ صدیقی صرف پانچ سال کی تھیں جب ان کا خاندان بھارت سے نیو جرسی منتقل ہوا۔ جویریہ کےمطابق کمسنی ہی میں امریکہ آجانے کے باوجود ان کا ہمیشہ بھارت کے ساتھ تعلق بہت مضبوط رہا ہے مگر مودی حکومت کے بعد انڈیا کی صورتحال دیکھنے کے بعد اب وہ اس وطن کے لیے جہاں وہ پیدا ہوئیں پہلے جیسی محبت محسوس نہیں کرتیں۔ جویریہ کے نیو جرسی میں کئی ہندو دوست ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کا حلقہ احباب اتنا پڑھا لکھا ہے کہ وہ اپنی دوستی میں مذہب اور سیاست کا ذکر آنے ہی نہیں دیتے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب وہ جب بھارت میں اپنے سسرال جاتی ہیں توہمحسوس کرتی ہیں کہ پہلے جیسا ماحول نہیں رہا۔ پہلے بھارت میں تمام کمیونٹیز کے درمیان کافی ایکا نظر آتا تھا۔

نیو جرسی میں رہنے والے بھارتیوں کے حوالے سے جویریہ بھارت کے یوم آزادی پر "بابا کا بلڈوزر" نکالنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس سے امریکہ میں بھارتی مسلمان کو مایوسی ہوئی ہے کہ کس طرح بھارتی معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو تنہا کیا جا رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ وہ اس بات پر افسوس کرتی ہیں کہ اگر بھارت میں ایسا ہو رہا ہے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہاں جہالت بہت ہے جہاں سیاستدان مذہبی منافرت سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر جب بات امریکہ کی ہو تو اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں رہنے والے لوگ زیادہ پڑھے لکھے، سیاسی طور پر بیداراور انسانی حقوق کی آگہی رکھتے ہیں۔ یہاں ایک ہتک آمیز علامت کا بھارت کے یوم آزادی پر پریڈ میں یوں شامل کیا جانا لمحہ فکریہ ہے۔

اس پریڈ کی منتظم تنظیم نے وائس آف امریکہ کی طرف سے بذریعہ ای میل درخواست کے باوجود اپنا ردعمل نہیں دیا۔ تاہم جہاں امریکہ میں ایک مقیم مسلمان کمیونیٹی پریڈ میں تقسیم اور انہدام کی علامت سمجھے جانے والے بلڈوزر کی موجودگی پر تنقید کر رہے ہیں، وہاں کئی ٹوئٹر صارفین اس کی حمایت میں بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔

زیبا وارثی کی ہی تنقیدی ٹویٹ پر مکیش پھاٹک کے نام سے ایک آئی ڈی سے جواب میں لکھا گیا ہے

’ یہ غلط ٹویٹ ہے جس کا مقصد اس (نام نہاد) صحافی کی جانب سے بھارت مخالف ایجنڈے کی حمایت کرنا ہے۔ وہ جانبدار ہیں‘

اسی ٹویٹ کے جواب میں مہہ نامی صارف نے بھی سوال اٹھایا ہے۔

ان کے الفاظ میں ’ کیا آپ نے پریڈ کے دوران کوئی ایک بھی نفرت آمیز تقریر سنی ہے؟ اگر سنی ہے تو پولیس کو رپورٹ کریں‘۔

سروائیور نام سے ایک ٹوئٹر آئی ڈی سے ایک ٹویٹ میں استدلال پیش کیا گیا ہے بلڈوزر ہر ایک کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی مذہبی تفریق کا عنصر نہیں ہے۔ اس کا واحد مقصد جرم اور مجرم کا صفایا ہے۔

اس واقعے اور اس پر مسلمان تنظیموں کی جانب سے احتجاج اور مذمت کے مطالبے پر اس تقریب میں شرکت کرنے والے کانگریس مین فرینک پیلون، سینیٹر پیٹرک ڈیگنین اور ریاستی اسمبلی کے اسپیکر کریگ جے کاؤلن سمیت ایڈیسن اور ووڈبرج ڈسٹرکٹس کی جانب سے تا حال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG