گزشتہ ہفتے نیویارک میں ناول نگار سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ آور ہونے والے مشتبہ شخص کو جمعرات کی سہ پہر عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے جہاں اس پر فرد جرم عائد کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے وکیل استغاثہ کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ 24 سالہ ہادی مطر پر الزام ہے کہ اس نے گززشتہ ہفتے جمعے کے روز75 سالہ ادیب کو حملے میں زخمی کر دیا تھا۔ یہ واقع اس وقت پیش آیا جب کتاب "دی سیٹینک ورسز" کے ادیب لیک ایری نامی تعلیمی و تفریحی مقام پر لیکچر دینے کے لیے اسٹیج پر پہنچے تھے۔
ملزم کو چوٹاکوہ نامی کاؤنٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی جیسن شمٹ کے ایک ای میل پیغام کے مطابق دوپہر ایک بجے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
البتہ شمٹ کے دفتر نے ملزم کی پیشی کی نوعیت کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ یہ ایک خفیہ عدالتی کاروائی کا آغاز ہوگا۔
اس سے قبل مشتبہ حملہ آور کاونٹی کی ایک عدالت میں ہفتے کے روز پیش ہوا تھا جہا ں اس نے وکیل استغاثہ کی طرف سے دائر کی گئی مجرمانہ شکایت میں درج سسیکنڈ ڈگری کے قتل کی کوشش کے مرتکب ہونے ا ور حملہ کرنے کے الزامات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ہادی مطر کو بغیر ضمانت کے زیر حراست رکھا گیا ہے ۔
خیال رہے کہ سلمان رشدی پر گزشتہ جمعہ کو ہونے والا حملہ ان کی کتاب کی اشاعت کے بعد ایران کے اس وقت کے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی کی جانب سے رشدی کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کرنے کے 33 سال بعد ہوا ۔
فتوی جاری ہونے کے بعد سے بھارتی نژاد مصنف اپنے سر پر رکھی گئی قیمت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ کچھ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کی کتاب میں شامل عبارتیں اسلام کے بارے میں توہین آمیز ہیں۔
سن 1998 میں اس وقت کے اصلاحات کے حامی ایرانی صدر محمد خاتمی کی حکومت نے خود کو سپریم لیڈر کے فتویٰ سے الگ کر لیا تھا اور کہا تھا کہ رشدی - جو اس وقت تک نو سال کی روپوشی کی زندگی گزار چکے تھے - کے خلاف خطرہ ختم ہو گیا تھا۔
لیکن اس کے تقریباً دہ دہائیوں بعد سن 2019 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا اکاؤنٹ ان کی طرف سے پوسٹ کی گئی ایک ٹوئٹ پر معطل کر دیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ رشدی کے خلاف دیا گیا فتویٰ اب بھی قائم اور اٹل ہے۔
نیویارک میں ہونے والے واقع کے بعد امریکہ اور برطانیہ سمیت سیاسی رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے کے سلمان رشدی کے خلاف حملے کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا ہے۔
دریں اثنا نیویارک پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہادی مطر نے کہا کہ وہ خمینی کی عزت کرتا ہے لیکن اس نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ آیا وہ ایرانی رہنما کے فتوے سے متاثر ہوا تھا۔ مطر نے بتایا کہ اس نے کتاب" شیطانی آیات" کے کچھ صفحات پڑھے تھے اور کتاب کے مصنف کے یو ٹیوب پر کچھ ویڈیوز بھی دیکھے تھے۔
مطرنے پوسٹ میں شائع انٹرویو کے مطابق کہا کہ وہ سلمان رشدی کو پسند نہیں کرتا ۔ "وہ ایسا شخص ہے جس نے اسلام پر حملہ کیا اور مسلمانوں کے عقائد اور عقائد کے نظام کو حملوں کا نشانہ بنایا"۔
ایران کی وزارت خارجہ نے پیر کے روز کہا کہ تہران پر اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگایا جانا چاہیے۔
ادھر پولیس کے مطابق ایسا دکھا ئی دیتا ہے کہ مطر نے اکیلے ہی رشدی پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے پیچھے کارفرما محرکات کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں ہے۔
دوسری طرف ہادی مطر کے وکیل دفاع نیتھینئل بیرون نے کہا ہے کہ انہیں نیویارک پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا اور انہوں نے مطر کو کسی بھی ذرائع سے گفتگو کرنے سے منع کر رکھا تھا۔
رائٹرز کے مطابق لبنان نژاد ہادی مطر کیلی فورنیا میں پیدا ہوا تھا اور وہ ایک شیعہ مسلمان ہے۔
(اس خبر میں شامل موا رائٹرز سے لیا گیا ہے)