عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے لیے 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کے پیکج کی منظوری دے دی ہے جس میں سے ایک ارب 17 کروڑ ڈالر (1.17 بلین ڈالر) کی پہلی قسط فوری طور پر جاری کی جا رہی ہے۔
پیرکو واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے بورڈ کے ممبران نے پاکستان سے متعلق ایک اجلاس میں آئی ایم ایف کے معاشی پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں جائزے کے بعد اس کی منظوری دی ہے۔
اس سے پہلے جولائی میں آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان عملے کی سطح کا معاہدے ہوا تھا۔ جس کے تحت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے چار ارب بیس کروڑ ڈالر دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ اسی معاہدہ کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط کیا گیا تھا جس نے بعد بدھ کوتقریباً 1.2 بلین ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دی۔
پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور ویز برائے پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ احسن اقبال نے آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی بحالی اور 1.17 ڈالر کی قسط کے اجرا کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ یہ رقم ایک دو دن میں پاکستان کو منتقل ہو جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے معاشی اموار کے ماہر سینئر صحافی خرم حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف کی قسط دیگر ممالک سے بھی رقوم ملنے کی راہ ہموار کرے گی۔
“ آئی ایم ایف کا یہ پیکج اس لیے اہم ہے کیونکہ اس کی راہ ہموار ہونے کے بعد ہی دیگر ممالک سے ملنے والی مالی امداد کے آنے کا سلسلہ بھی شروع ہو پائے گا۔ پاکستان کے معاشی مسائل کی نسبت آئی ایم ایف کی جانب سے یہ رقم کافی نہیں لیکن یہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈیویلپمینٹ بینک کی جانب سے فنڈنگ کا راستہ کھولنے میں مدد دے گی۔”
حکومت پاکستان کے مطابق اس نے آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ پورا کیا ہے جس کے مطابق پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ اس مالی سال کے لیے سرمایہ کاری اور قرضوں کی شکل میں 37 ارب ڈالر مزید جمع کرے تاکہ وہ سری لنکا کی طرح دیوالیہ نہ ہو۔
پاکستانی حکام کے مطابق موجودہ قرضوں میں چین کی جانب سے دس ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم شامل ہے جس کی ادائیگی کے لیے مزید وقت دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق سعودی عرب نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ متحدہ عرب امارات بھی اتنی ہی رقم سے پاکستان کے تجارتی شعبے میں سرمایہ کاری کرے گا اورگزشتہ ہفتے دوحہ نے پاکستان میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔
اس سلسلے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اٹلانٹک کونسل کے ایشا پروگرام کے ڈائریکٹر عزیر یونس نے کہا کہ پاکستان کو رقوم کی ترسیل فوری ضروریات کے لیے کافی ہے لیکن اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔
’’پاکستان کے لیے آئی ایم ایف اور دیگر دوست ممالک کی مالی مدد کی پیشکش ملا کر تقریباً پندرہ ارب ڈالر کی رقم بنتی ہے۔ تو پاکستان اگلے مالی سال کے لیے معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی حد تک تو قابل ہو جائے گا لیکن روس کی یوکرین میں جاری جنگ سے اگر تیل اور توانائی کے شعبے میں قیمتیں پھر بڑھتی ہیں تو پاکستان کی معاشی صورتحال خطرے میں ہو گی۔ “
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سیلاب کی صورتحال بھی معاشی بوجھ میں اضافہ کر رہی ہے۔ پاکستان میں مون سون کی بارشوں سے آنے والے سیلاب سے ایک ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ پاکستان پہلے سے ہی معاشی بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔
آئی ایم ایف پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ پاکستان ایک مشکل معاشی موڑ پر ہے۔ ادارے نے کہا تھا کہ بین القوامی معاشی ماحول اور پاکستان کی اندرونی پالیسیوں کی وجہ سے طلب غیر مستحکم سطح تک پہنچ گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس پروگرام میں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے، آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والے پروگرام کے مطابق پالیسی اصلاحات لانا ترجیحات میں شامل ہے۔
اس سلسلے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خرم حسین نے کہا کہ معیشت میں استحکام کے لیے پاکستان میں سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔
’’آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کے لیے پاکستان میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ ابھی ملنے والی مالی مدد پاکستان کی معیشت کو وقتی طور پر سہارا دے سکتی ہے مگر پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری سیاسی استحکام سے ہی جڑی ہے۔”
خیال رہے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وفاق کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے مطالبات کا دوبارہ جائزہ لے کیونکہ پی ٹی آئی کی قیادت والی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں سیلاب کی وجہ سے وفاقی حکومت کو مطلوبہ رقم کی ادائیگی نہیں کر سکتیں۔ اس رقم کی ادائیگی آئی ایم ایف کے پروگرام سے جڑی ہے۔
آئی ایم ایف کے پاکستان کو قرضوں کی تاریخ
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پاکستان نے 22 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرضے لیے ہیں۔ یہ 23 واں پیکج ہے جو پاکستان کو ملا ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ 35 سال تک فوج نے ملک پر حکمرانی کی ہے ۔
آئی ایم ایف کے پاس پاکستان پہلی بار 1958 میں گیا تھا، جب جنرل ایوب خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا۔ جس کے بعد خصوصی ڈرائنگ رائٹس (SDR) کی مدد میں 25 ملین ڈالر کے حصول کے لیے ایک معاہدے پر دستخط ممکن ہوئے تھے۔ تاہم رقم نہیں لی گئی۔
لیکن پھر جنرل ایوب کی انتظامیہ نے بالترتیب 1965 اور 1968 میں آئی ایم ایف کے دو پروگراموں پر دستخط کیے اور اس بار وہ تقریباً 112 ملین ایس ڈی آر نکلوانے میں کامیاب ہو گئے۔جس کے بعد پاکستان باضابطہ طور پر آئی ایم ایف کا نیا کلائینٹ بن گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے دس بار، مسلم لیگ ن نے چار بار ، سابق جنرل مشرف اور ضیاالحق دونوں نے دو دو بار آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔