پاکستان ٹیلی ویژن انڈسٹری گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خاصی پروان چڑھی ہے۔'داستان'، 'ہم سفر' اور 'پیارے افضل' جیسے ڈراموں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی پسند کیا گیا ہے۔
پاکستان میں ایسے ڈراموں کی تعداد کافی زیادہ ہے جس کی کہانی روتی ہوئی عورت کے گرد گھومتی ہو ۔ جب کہ ایسے ڈرامے نسبتاً کم ہیں جو معاشرے کی برائیوں کے حقیقی عکاس ہوں۔
لیکن برسوں میں پاکستانی ڈراموں کا انداز کچھ بدلا سا نظر آ رہا ہے۔ حال ہی میں ختم ہونے والے ہم ٹی وی کے ڈرامہ سیریل 'بادشاہ بیگم' میں جاگیردارانہ نظام میں ایک طاقت ور عورت کی کہانی کو پیش کیا ہے۔
منگل کو 'بادشاہ بیگم' کی آخری قسط نشر کی گئی۔ ڈرامے میں زارا نور عباس نے ٹائٹل رول ادا کیا ہے جس کی کہانی اندرونِ سندھ میں موجود پیروں اور ان کے مریدوں کے گرد گھومتی ہے۔ 'بادشاہ بیگم' میں دکھایا گیا ہے کہ زارا نور عباس اور ان کے بھائی بھی جاگیردارانہ نظام کو ختم نہ کرسکے۔
گزشتہ ماہ ختم ہونے والے ہم ٹی وی کے ڈرامے 'پہچان' میں ایک ایسی عورت کو دکھایا جس نے اپنے گھروالوں کو چھوڑ کر آزادی سے زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ جب کہ اس وقت آن ایئر ڈرامہ 'بختاور' میں ایک مضبوط خاتون کا کردار کھایا گیا جو اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے لڑکے کا روپ دھارتی ہے۔
اس کے علاوہ جیو انٹرٹینمنٹ کا ایک اور ڈرامہ 'دراڑ' ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتا ہے جو بن ماں باپ کے اپنے چچا کے پاس پرورش پاتی ہے۔ اور لوگوں کے طعنوں کے باوجود اپنا مقام بنانے کے لیے گھر سے باہر نکل کر نوکری کرتی ہے۔
ڈرامہ سیریل 'بادشاہ بیگم' کے رائٹر ساجی گل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ناظرین کو نئی چیز نہیں دکھائی جائے گی وہ پرانی چیز کو ہی بہترین سمجھیں گے اور اسی وجہ سے انہوں نے 'بادشاہ بیگم' تحریر کیا ہے۔
ہم ٹی وی کے ڈرامہ 'بادشاہ بیگم'کو پاکستانی 'گیم آف تھرونز' کہا جا رہا ہے جب کہ چند کے خیال میں یہ اسی کی دہائی میں بننے والے پی ٹی وی ڈراموں کی طرز پر بنا ہے۔ اس بارے میں ساجی گل کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھارتی شاعر و ہدایت کار گلزار صاحب کی تیکنیک استعمال کی جو شاہی کہانیوں کو فلم کے اسکرپٹ میں خوبصورتی سے ڈال دیتے ہیں ۔
ان کے بقول کہنے کو 'بادشاہ بیگم' میں بھی خاندانی سیاست عروج پر ہے لیکن اس کا وژن بہت وسیع ہے۔ ایک عام آدمی جو جاگیردارانہ نظام کے بارے میں نہیں جانتا اسے یہ ڈرامہ فرضی لگے گا لیکن ہمارے معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب تک ہم اپنی کہانیوں کو 'لارجر دین لائف' بناکر پیش نہیں کریں گے ہمارا ٹی وی آگے نہیں بڑھے گا۔
ڈرامہ سیریل 'دراڑ' میں 'ارحا' کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ امر خان کہتی ہیں کہ "دراڑ میں ان کا کردار ایک ایسے ماحول میں کام کرتا ہے جہاں عموماً مرد حضرات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن چوں کہ اسے اپنے گھروالوں کا ہاتھ بٹاناہے اس لیے ارحا کو حالات آزاد اور مضبوط بنا دیتے ہیں۔"
امر خان کے بقول آج سے دو تین سال پہلے ایسےکردار کا تصور کرنا بھی مشکل تھا لیکن ڈیجیٹل عوام نے اپنی رائے دے دے کر کانٹینٹ بنانے والوں کو سلجھے ہوئے کردار لکھنے پر مجبور کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کون اداکار ایک ہی جیسے اور بے معنی کردار کرکر کے آگے بڑھنے کی توقع کرسکتا ہے؟ امر کے بقول اب تو ڈرامے فوراً یوٹیوب پر آجاتے ہیں جسے دیکھ کر عوام فوراً ہی اپنا فیصلہ سنادیتی ہے، ڈرامہ اگر اچھا ہوتا ہے تو سب تعریف کرتے ہیں لیکن اگر برا ہو تو عوام قسط کے ختم ہونے کا انتظار کیے بغیر اپنی رائے کا اظہار کر دیتی ہے۔
اداکارہ کامزید کہنا تھا کہ ا ب لوگوں کو روتی دھوتی لڑکی نہیں، ذمے دار اور ترقی پسند لڑکی چاہیے اور اسی لیے لکھنے والے بھی روتی ہوئی لڑکی کے کردار کو پیچھے ڈھکیل رہے ہیں۔
'خوشی ہے کہ ایسے ڈراموں میں اداکاری کررہا ہوں جو معاشرے کی اصلاح کررہے ہیں'
'ڈراڑ'، 'میرے ہم نشین' اور حال ہی میں ختم ہونے والے ڈرامہ 'پہچان' میں اداکاری کرنے والے سید جبران کا کہنا ہے کہ "وہ جب بھی ڈرامہ کرتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ضرور ہو جس سے معاشرے کی اصلاح ہو۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سید جبران کا کہنا تھا کہ مضبوط عورت کا کردار دیکھ کر معاشرہ بھی مضبوط ہوگا اور ٹی وی ڈرامے بنانے والوں کی اس کاوش کو جتنا سراہا جائے وہ کم ہے۔
ان کے بقول "ساس بہو کے جھگڑوں نے ہمارے ناظرین کو بہت عرصے تک محظوظ کرالیا لیکن اب ناظرین کی سوچ اور ان کی پسند کو بدلنے کا وقت آگیا ہے اور اس وقت آن ایئر ڈرامے تبدیلی لانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔"
اداکار کا مزید کہنا تھا کہ بولڈ موضوعات پر بننے والے ڈرامے ہی معاشرے میں تبدیلی لاسکتے ہیں اور انہیں دیکھ کر مرد اور خواتین دونوں کی سوچ میں تبدیلی آسکتی ہے۔
'ساشا ' جیسے کردار کا ٹی وی پر انتظار کرتی تو کبھی موقع نہیں ملتا: ژالے سرحدی
دو ستمبر کو سنیما گھروں میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم 'کارما' میں اداکارہ ژالےسرحدی نے ایک ایسا کردار ادا کیا ہے جو پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں کسی اداکارہ نے شاید ہی کیا ہو۔
ژالے فلم 'کارما' میں ایک ایسے گینگ کی سرغنہ بنی ہیں جس کا کام امیر لوگوں کو ان ہی کی گاڑی میں اغوا کرکے ان کے گھروالوں سے تاوان وصول کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ژالے سرحدی نے بتایا کہ چوں کہ وہ خود انگلش ٹی وی شوز دیکھتی ہیں اس لیے انہیں اس قسم کے کردار کی تلاش تھی جو انہیں ٹی وی پر نہیں مل رہا تھا۔
ان کے بقول یہ کردار ولن کا ہی سہی لیکن اسے دیکھ کر لڑکیوں کو اندازہ ہوگا کہ وہ کسی سے کم نہیں اور جو کام مرد کرسکتے ہیں وہ بھی کرسکتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی ڈراموں کو اگر ترقی کرنا ہے تو لکھنے والوں کو ایسے کردار بالخصوص خواتین کے لیے، تخلیق دینا ہوں گے جن کا مقصد نہ تو دوسروں کی زندگی میں زہر گھولنا ہو اور نہ اسکرین پر صرف رونا۔ خواتین کو محض خوبصورتی کے لیے کاسٹ کرنا ایک المیہ ہے جس کا آگے جا کر ٹی وی ڈراموں کو نقصان ہوسکتا ہے۔
فلم 'جلیبی' سے فلمی کریئر کا آغاز کرنے والی اداکارہ ژالےسمجھتی ہیں کہ جب تک پاکستان میں ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں عورتوں کو آزاد خیال اور مضبوط نہیں دکھایا جائے گا ، اس وقت تک وہ صرف اسکرین پر رونے میں ہی خوش رہیں گی ۔اگر معاشرے میں خواتین کو اپنا الگ مقام بنانا ہے تو مظلوم کردار کی جگہ مضبوط کردار اپنانا ہوں گے۔