ایران نے سرحد پار شمالی عراق میں ایرانی نژاد کردوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میں کم ازکم 13 افراد ہلاک اور 58 زخمی ہو گئے ہیں۔ ایران کی سپاہ پاسدارانِ انقلاب نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے فضائی حملوں میں اربیل کے مضافات میں کردش ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران، صوبے سلمانیہ کے ایک گاؤں زرکویزیلا میں کرد کومالا پارٹی اور صوبہ کرکو ک میں کردش فریڈم پارٹی کو نشانہ بنایا۔
ایرانی فضائی حملوں کا نشانہ گھر، فوجی مراکز، دفاتر اور حتی ٰ کہ کردش علاقے کویا میں ایک پرائمری اسکول کے قریب شہری آبادی بھی بنی۔جب کہ چار راکٹ بغداد کے گرین زون میں بھی گرے جہاں پارلیمنٹ اور امریکی سفارت خانہ واقع ہے۔
عراق کی سرکاری نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان حملوں میں کم ازکم 13 افراد ہلاک اور 58 زخمی ہوئے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اپنے ایک بیان میں ان حملوں کو عراق اور اس کے عوام کی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ عراقی کردستان علاقے میں کیے گئے ڈرون اور میزائل حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
سلیوان نے مزید کہا کہ امریکہ ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے پابندیاں اور دیگر طریقے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کا بھی کہنا ہے کہ اس نے عراقی کردستان کے صدر مقام اربیل کو نشانہ بنانے والے ایک ایرانی ڈرون کو مار گرایا، کیوں کہ اس سےامریکی اہل کاروں کو خطرہ لاحق تھا۔
سینٹ کام نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ ان حملوں سےامریکی فوج کا کوئی اہل کار زخمی یا ہلاک نہیں ہوا اور نہ ہی امریکی ساز و سامان کو کوئی نقصان پہنچا۔
بدھ کے روز یہ حملے ایک ایسے موقع پر کیے گئے ہیں جب اسلامی جمہوریہ ایران میں 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد تقریباً دو ہفتوں سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
مہسا کو ایران کی اخلاقی پولیس نے 'مناسب طریقے سے سر نہ ڈھاپنے' پر گرفتار کیا تھا اور وہ پولیس کی تحویل میں ہلاک ہو گئی تھیں۔اس واقعے کے خلاف ایران کے اکثر علاقوں میں جاری پر تشدد مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
نیویارک میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اطلاع دی ہے کہ ایران میں جاری احتجاج کے دوران اب تک کم از کم 23 صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران نے عراق پر اس حملے کے ذریعے اپنے اندرونی تنازع کی ذمہ داری بیرونی عناصر پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ایران کے قومی ٹیلی ویژن پر ایک بیان میں پاسدارانِ انقلاب، ایران کی ایلیٹ فوج اور سیکیورٹی فورسز نے کہا ہے کہ "یہ آپریشن بھرپور عزم کے ساتھ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک خطرے کو مؤثر طریقے سے پسپا نہیں کر دیا جاتا، دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور کرد علاقے کے حکام اپنی ذمہ داریاں نبھانا شروع نہیں کر دیتے۔"
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق فضائی حملوں کا ہدف بننے والے ایرانی-کرد اپوزیشن گروہوں نے ایران میں جاری مظاہروں کی حمایت کا اظہار تو کیا ہے، لیکن ایسی کوئی علامت موجود نہیں ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہو کہ وہ ایران میں جاری مظاہروں اور بدامنی میں براہِ راست ملوث ہیں۔
اس خبر میں بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔