روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے ریزرو فوج کو طلب کرنے کے بعد سے روس کے طول و عرض میں پھیلے مختلف اقلیتی نسلی گروہوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور کئی علاقوں میں اس پر احتجاج بھی کیا گیا ہے۔
صدر پوٹن کی جانب سے ریزرو فوج کی طلبی اور جزوی طور پر فعال کرنے کے بعد جارجیا سے متصل داغستان ریجن میں 25 ستمبر کو احتجاجی مظاہرہ ہوا جس کے باعث ٹریفک جام ہوگیا۔ اسی طرح منگولیا کی سرحد کے قریب واقع بوریاتیا ریجن میں بھی صدر پوٹن کے اعلان کے خلاف نہ صرف احتجاج کیا گیا بلکہ اس خطے کی خود مختاری کے لیے سرگرم ’فری بوریاتیا فاؤنڈیشن‘ نے ریزور فورس کے ایسے اہل کار جو موجودہ نقل و حرکت کا حصہ نہ بننا چاہتے ہوں ان کے لیے خصوصی ڈیسک بھی قائم کردیا ہے۔
روس میں شامل سائبیریا کے خطے کے دور دراز علاقے یاکوتیا میں بھی صدر پوٹن کے تین لاکھ رضا کار اہل کاروں کو یوکرین بھیجنے کے منصوبے کی مزاحمت کی جارہی ہے۔ یاکوتیا میں ہونے والے مظاہروں کے شرکا نے روایتی رقص کرنے کے ساتھ ’جنگ نا منظور، قتل عام نامنظور‘ کے نعرے بھی لگائے تھے۔
اس کے علاوہ ماسکو سمیت روس کے بڑے شہروں میں بھی ریزرو فوج کی طلبی کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
صدر پوٹن نے ستمبر میں یوکرین جنگ کے لیے تین لاکھ ریزرو فوج طلب کرنے کا اعلان کیا تھا۔ صدر کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق ریزرو فوج میں عام شہری ہیں جو مسلح افواج کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں اور ضروری عسکری صلاحیت اور تجربہ رکھتے ہیں۔
تاہم واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فور دی اسٹڈی آف وار (آئی ایس ڈبلیو) کے مطابق روس کی ریزرو فوج کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے جن میں ضروری فوجی تربیت حاصل کرنے والے اور کاغذی کارروائی تک عارضی خدمات انجام دینے والے بھی شامل ہیں۔ البتہ ان میں ایسے اہل کاروں کی تعداد بہت کم ہے جو مکمل عسکری تربیت یا تجربہ رکھتے ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ روس میں ریزرو فوج کی طلبی پر رد عمل سامنے آیا ہے اور خاص طور پر اقلیتی نسلی گروہ سے تعلق رکھنے والوں میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے کیوں کہ اس حالیہ حکم نامے کے بعد انہیں خاص طور پر محاذ پر بھیجنے کے لیے طلب کیا جارہا ہے۔
’اقلیتوں کو قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روس میں موجود اقلیتی نسلی گروہوں کے احتجاج اسے اندازہ ہوتا ہے کے یوکرین جنگ کے لیے ریزرو فوج کی طلبی کی بھاری قیمت ان گروہوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جس دن صدر پوٹن نے ریزور فوج طلب کرنے کے احکامات جاری کیے تھے عسکری حکام بوریاتیاکے دیہی علاقوں میں افرادی قوت جمع کرنے پہنچ گئے تھے۔
اس رپورٹ میں فری بوریاتیا فاؤنڈیشن کی صدر الیگزینڈرا گرامزا پوا کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ حکام اپنے پاس موجود ریکارڈ کے مطابق ریزرو فوج میں درج کیے ناموں کے مطابق لوگوں کو ان کے گھروں سے بلا کر لے جارہے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ ایسے لوگوں کے نام بھی پکارتے ہیں جن کا انتقال ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پوٹن کی جانب سے جزوی موبلائزیشن یہاں بسنے والے اقلیتی گروہ کے لیے جزوی نہیں ہے۔
روس نے 2014 میں کرائمیا پر قبضہ کرکے اس کا الحاق کیا تھا۔ ریزرو فوج کی طلبی کے احکامات کے بعد یہاں تاتار اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والوں کو سب سے زیادہ تعداد میں طلب کیا گیا ہے۔
اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن عثمان پاشیوف کے مطابق کرائمیا میں ریزرو فوجیوں کے لیے جاری ہونے والے طلبی کے نوٹسز میں سے 80 فی صد کرائمیا کے تاتاروں کو جاری کیے گئے ہیں۔
امریکہ میں نیو لائن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ روس کے عسکری امور کے ماہر جیف ہوان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال سے واضح ہوتا ہے کہ روس کے اقلیتی گروہوں کو پوٹن کے ریزرو فوج کی طلبی اور یوکرین جنگ کی زیادہ بڑی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
باتھ یونیورسٹی سے وابستہ روس کے امور کے ایک اور ماہر اسٹیفن ہال کا کہنا ہے کہ ماسکو یوکرین کی جنگ میں اپنے نقصانات کی مکمل تفصیل فراہم نہیں کرتا۔ البتہ نامکمل سرکاری اعداد وشمار میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ روس کی اقلیتی نسلی و لسانی گروہ اس جنگ کی کتنی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان اقلیتی گروپس پر یوکرین کی جنگ کا اس لیے بھی دہرا اثر پڑ رہا ہے کہ جن علاقوں میں یہ بستے ہیں وہ پہلے ہی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔ جب کہ روس کی فوج میں ان کی نمائندگی ان کی آبادی کی شرح سے زیادہ ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اقلیتی نسلی گروہوں کے علاقوں میں ریزرو فوج کی طلبی پر زیادہ زور دینے کی ایک سیاسی وجہ بھی ہے۔ گلاسگو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی سینیئر لیکچرار ایڈرین فلوریا کا کہنا ہے کہ پوٹن جانتے ہیں کہ اقلیتی علاقوں کے لوگ زیادہ تر دور دراز علاقوں میں بستے ہیں۔ اس لیے وہ وہ ایسے احکامات کے خلاف ردعمل میں شہری علاقوں میں زیادہ بڑے مظاہرے منظم نہیں کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کے گورنرز بھی پوٹن کے لگائے ہوئے ہیں جو اپنے سیاسی کریئر کے لیے ان کے مرہون منت ہیں۔ اس لیے صدر پوٹن جانتے ہیں کہ یہ گورنر ان کے احکامات عمل درآمد کے لیے زیادہ کام کریں گے۔
اسٹیفن ہال کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن کو اس بات کا اندازہ بھی ہے کہ روس میں کسی سیاست دان کو ان نسلی گروہوں کی فکر نہیں ہے۔ یہ دور دراز علاقوں میں بسنے والے لوگ ہیں جن کی رائے کا ان کے خیال میں روس کی سیاست پر زیادہ اثر نہیں پڑتا۔
ایک خطرناک کھیل
قازقستان کی نظربائیوف یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرِ سیاسیات کاریس شینک کا کہنا ہے روس میں یہ کہنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے کہ ان کا ملک یوکرین جنگ کے بعد بدلنا شروع ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ریزرو فوج کی طلبی کے باعث ملازمت پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد کو محاذ پر بھیجا جارہا ہے جس کے معاشی اثرات ہیں۔ اقلیتی گروہ جن علاقوں میں بستے ہیں وہ پہلے ہی غربت کا شکار ہیں اور اس معاشی دباؤ کی وجہ سے وہاں غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔
ایڈرین فلوریا کا کہنا ہے کہ یہ حکمت عملی اختیار کرکے کریملن ان علاقوں میں اپنی حکومت کے جواز کو خطرے میں ڈال رہا ہے جہاں پہلے ہی نسلی گروہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
اسٹیفن ہال کے مطابق یہ کھیل پوٹن کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مثلاً داغستان میں کم و بیش 30 ایسے نسلی و لسانی گروہ ہیں جو شاید ہی کسی بات پر متفق ہوتے ہوں۔ لیکن وہ بھی اب یوکرین جنگ کے لیے ریزرو فوج کی طلبی پر مل کر احتجاج کررہے ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج پھیل کر بڑے شہروں تک پہنچتے ہیں یا نہیں اور ان کے اثرات کتنے دور رس ہوتے ہیں اس کے بارے میں بہت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
اسٹیفن ہال کے مطابق اگر یوکرین میں جنگ جاری رہتی ہے اور اس کے لیے اسی طرح ریزرو فوجیوں کو طلب کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو احتجاج کا دائرہ بھی بڑھے گا۔ جس میں تاتارستان جیسے زیادہ با اثر علاقے بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ روس کی حکومت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہوگا۔
عسکری امور کے ماہر جیف ہوان کے مطابق یوکرین کے میدانِ جنگ میں اقلیتی نسلی گروہ سے تعلق رکھنے والے رضا کاروں کو اتارنے کے اس جنگ پر بھی اثرات ہوں گے۔
ان کے مطابق پوٹن وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو سو برس قبل روسی حکمران زارِ روس نے کی تھی۔ 1917 سے 1922 کے دوران روس کی خانہ جنگی میں جیسے ہی سفید فام روسیوں کو شکست ہونے لگی زار نے اقلیتی نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے رجمنٹس کو میدان میں اتارا تھا۔ تاہم جب حالات زیادہ خراب ہوئے تو سب سے پہلے ان ہی رجمنٹس نے زار کے خلاف بغاوت کی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہی وجہ تھی کہ سوویت یونین کے دور میں بھی فوج کی بٹالینز میں نسلی تناسب کی شرح کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی پر شائع ہونے والے ایک تجزیے کے مطابق ریزرو فوج کے جن اہل کاروں کو یوکرین کے خلاف میدان میں اتارا جارہا ہے ان کی ٹریننگ ناقص ہے اور انہیں ہتھیاروں کی کمی کا سامنا بھی ہے۔
اس کے علاوہ وہ نسلی اقلیتی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں روس کی ’مادرِ وطن‘ پر مر مٹنے کا جذبہ نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک ان کی تاریخ اور یادداشت کا حصہ ہے۔
اس تحریر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔