بین الاقوامی برادری نے بدھ کے روز ماسکو کے نام نہاد ریفرنڈم اور یوکرین کے کچھ حصوں کے الحاق کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی اور غلط قرار دیتے ہوئے اسے ایک واضح پیغام بھیجا۔
ماسکو کے 24 فروری کے حملے کے بعد سے یوکرین کی حمایت کے اپنے مضبوط ترین مظاہرے میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 5 کے مقابلے میں 143 ووٹوں سے روس کی جانب سے یوکرین کے علاقوں کے الحاق کے اقدام کی مذمت اور اسے مسترد کرنے کی قرارداد منظور کی ۔
35 ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن ان ووٹوں کو قرار داد کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت میں شمار نہیں کیا جاتا۔ووٹنگ میں روس کے ساتھ بیلا روس، شمالی کوریا، شام اور نکاراگوا تھے۔
ایک ٹویٹ میں یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی نے اس حمایت پر ملکوں کا شکریہ ادا کیا جسے انہوں نے UNGA کی تاریخی قرار داد کہا ۔
اقوام متحدہ کے لیے یوکرین کے سفیر سرگئی کسلٹسیا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ووٹنگ کا نتیجہ شاندار تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ملکوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کا دفاع اور چارٹر کی پیروی کر کے درست فیصلہ کیا ہے۔
صدر بائیڈن نے ووٹنگ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی نمایاں اکثریت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے دفاع اور یوکرین کے علاقوں کے زبردستی الحاق کی غیر قانونی کوشش کو مسترد کر نے کے لیے ووٹ دیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ وہ روس کو اس کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرانے کے لیے جتنی زیادہ متحد اور پر عزم اب ہے اتنی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔
ان خدشات کے باوجود کہ یوکرین کے لیے حمایت لگ بھگ آٹھ ماہ کی اس جنگ کے بعد کم ہو سکتی ہے جس نے عالمی خوراک، توانائی اور افراط زر کے بحران کو بد تر کر دیا ہے، جنرل اسمبلی کی ووٹنگ سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بین الاقوامی برادری ابھی تک روس کی جنگ کے خلاف اپنے موقف میں زیادہ تر متحد ہے۔
بدھ کو ایک روزہ اجلاس اس خصوصی ہنگامی اجلاس کا تسلسل تھا جو روس کے نام نہاد ریفرنڈمز اور یوکرین کے چار علاقوں ڈونیٹسک ، لوشانسک ، کھیرسن اور زاپورژیا کے الحاق کی کوششوں پر بات چیت کے لیے پیر کو شروع ہوا تھا۔
اگرچہ جنرل اسمبلی کی قرارداد پر قانونی طور پر عمل درآمد لازمی نہیں ہے ، تاہم یہ بین الاقوامی برادری کے اخلاقی وزن کی حامل ہے۔
ووٹنگ کے بعد امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کی ووٹنگ کاایک عملی اثر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا اور اقوام متحدہ کی نظر میں یوکرین کی سرحدیں بدستور پہلے جیسی ہیں ۔ کھیرسن یوکرین ہے۔ زاپورژیا ، یوکرین ہے۔ ڈونیٹسک یوکرین ہے ، لوشانسک یوکرین ہے ۔ اور یوکرین بدستور یوکرین ہے۔
فرانس کے سفیر نکولس ریویئر نے کہا کہ جنرل اسمبلی جس سوال کو زیر غور لا رہی تھی وہ ہم سب کی تشویش تھا ۔
امریکہ نے ارکان پر ماسکو کو ایک واضح پیغام بھیجنے پر زور دیا ۔تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امن لانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس جارحیت کو روکا جائے ۔ جواب دہی کا مطالبہ کیا جائے ۔ اس موقف پر اکٹھے کھڑے رہیں اور ہم جو کچھ برداشت نہیں کریں گے ا س کا اظہار کریں۔
بیشتر ملکوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر ، یوکرین کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں، اقتدار اعلی ، علاقائی سالمیت اور سیاسی خود مختاری کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔
روس کی حمایت
پیر کے روز شروع ہونے والی بحث میں جو بدھ تک جاری رہی ، ماسکو کے لیے اسمبلی میں ایک دوست سامنے آیا ۔ شمالی کوریا کے سفیر کم سونگ نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ریفرینڈمز اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت منعقد کرائے گئے جو لوگوں کے مساوی حقوق اور حق ارادیت کے اصولوں کا متقاضی ہے ۔
شام کے سفیر نے بھی روس کا دفاع کیا ۔سفیر ، بسام ال سباغ نے کہا کہ مغرب اسمبلی میں ووٹنگ کے ذریعے روس کی جانب ایک اشتعال انگیز رویہ اپنا رہا ہے ۔ انہوں نے ماسکو کو جعلی خبروں کے شکار کے طورپر پیش کیا جب کہ وہ صرف یوکرین کے حصوں میں موجود اپنے لوگوں کی حفاظت کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم کینڈا نے ایسے دعووں کو مسترد کر دیا ۔ سفیر باب رائے نے کہا کہ روس کے اپنے فوجی، اس کا اپنا توپخانہ، اس کے اپنے ٹینک، اس کے اپنے جنگی جہاز ، اس کے اپنے میزائل روسی زبان بولنے والے شہروں ، قصبوں کو تباہ کر رہے ہیں اور مشرقی یوکرین میں روسی زبان بولنے والوں کا استحصال کر رہے ہیں۔
بحث کے دوران روس کے سفیر نے ووٹنگ کو سیاسی بنیاد کی حامل اور اشتعال انگیز قرار دیا اور خبردار کیا کہ اس سے امن کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
ویسیلی نیبنزیا نے کہا کہ قرارداد کے اس مسودے کو متعارف کرا کر مغربی ملک اپنے جیو پولیٹیکل مقاصد کے حصول اور جنرل اسمبلی کے ارکان کو ایک بار پھر ان مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
روس برکس بلاک کا حصہ ہے جس میں برازیل ، بھارت ، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ برازیل نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ چین ، بھارت ، اور جنوبی افریقہ غیر حاضر رہے ۔
ایران بحث سے غیر حاضر رہا جو ماسکو کو اس کی جنگی کوشش کے لیے ڈرونز فروخت کر چکا ہے ۔ اس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔
سعودی عرب نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا اور ماسکو کی اسی طرح مذمت کی جیسا کہ اوپیک کے اس کے ساتھی رکن متحدہ عرب امارات نے کی۔