رسائی کے لنکس

مریخ پر پانی کی موجودگی کے ٹھوس شواہد مل گئے


مریخ کی سطح سے ایک بڑے شہابیے کے ٹکرانے سے سائنس دانوں کو وہ انمول چیز مل گئی ہے جسے وہ برسوں سے تلاش کر رہے تھے۔ مریخ پر پانی کی موجودگی اس سرخ سیارے پر مستقبل میں انسانی بستیاں بنانے اور خلا کی گہرائیوں کے سفر میں مدد دے سکتی ہے۔

مریخ کی سطح سے ایک بڑا شہابیہ 24 دسمبر 2021 کو ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ارتعاش کی لہروں کو شہابیے گرنے کے مقام سے تقریباً 3500 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ناسا کی خلائی گاڑی ’ان سائٹ‘ نے ریکارڈ کر کے زمینی مرکز کو بھیجا۔ ان لہروں کی شدت زلزلہ پیما پر چار درجے تھی۔

ناسا کا ہی بھیجا ہوا ایک خلائی جہاز ’ مارس ریکاناسنس آربٹر‘ (ایم آر او) مریخ کے گرد گردش کر رہا ہے، جس کے کیمروں سے سائنس دان مریخ کی تصاویر حاصل کرتے ہیں۔

شہابیہ گرنے کے 24 گھنٹوں کے بعد’ ایم آر او‘ کا اس مقام سے گزر ہوا اور اس کی بھیجی جانے والی تصاویر کے تجزیے سے ظاہر ہوا کہ اس ٹکر سے بننے والے گڑھے کا قطر 492 فٹ اور گہرانی 72 فٹ ہے اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ گڑھے کے باہر برف کے ٹکڑے بھی دیکھے گئےجو سطح پر شدید دباؤ کے باعث باہر نکلے تھے۔

شہابیے کے مریخ کی سطح سے ٹکرانے کے نتیجے میں زمین کے اندر موجود برف کے ٹکڑے اچھل کر باہر نکل آئے جنہیں اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
شہابیے کے مریخ کی سطح سے ٹکرانے کے نتیجے میں زمین کے اندر موجود برف کے ٹکڑے اچھل کر باہر نکل آئے جنہیں اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

سائنس دان ایک عرصے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ مریخ کی سطح پر کبھی پانی موجود تھا اور یہاں دریا اور ندی نالے بہتے تھے، جن کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ مگر مریخ کی فضا کے باعث یہ پانی تحلیل ہو گیا اور مریخ کی سطح خشک پڑ گئی۔ تاہم سائنس دانوں کا اندازہ تھا کہ مریخ کے قطبی علاقوں میں پانی برف کی شکل میں اب بھی موجود ہے۔

مریخ کی سطح پر چار سال قبل ایک گاڑی ’ان سائٹ‘ اتاری گئی تھی جو ایک طرح کی سائنسی لیبارٹری ہے اور وہ مریخ کی سطح کے نمونوں کا تجزیہ کر کے اس کا ڈیٹا ناسا کو بھیج رہی ہے، جس سے سائنس دانوں کو سرخ سیارے کی سطح اور اس کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں معلومات مل رہی ہیں۔

اس گاڑی پر نصب زلزلہ پیما ان چار برسوں میں مریخ کی سطح پر 1300 کے لگ بھگ ارتعاش ریکارٖڈ کر چکا ہے جو شہابیوں کے مریخ پر گرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم اب اگلے چند ماہ میں ’ان سائٹ‘ اپنا کام بند کرنے والی ہے کیوں کہ اسے شمسی توانائی مہیا کرنے والے سولر پینلز پر گرد و غبار کی تہیں جم گئی ہیں جس سے برقی رو کی فراہمی میں خلل پڑ رہا ہے۔

برف کی تصاویر بھیجنے والا خلائی جہاز ایم آر او ایک راکٹ کے ذریعے 16 سال پہلے مریخ کے مدار میں بھیجا گیا تھا جو مسلسل سرخ سیارے کے گرد گردش کر رہا ہے اور سائنسی معلومات زمینی مرکز کو بھیج رہا ہے۔

مریخ کی سطح کا تجزیہ کرنے والی متحرک لیبارٹری ’ان سائٹ‘ پر نصب زلزلہ پیما آلات نے شہابیے کے گرنے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کو ریکارڈ کیا۔
مریخ کی سطح کا تجزیہ کرنے والی متحرک لیبارٹری ’ان سائٹ‘ پر نصب زلزلہ پیما آلات نے شہابیے کے گرنے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کو ریکارڈ کیا۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی ' کے مطابق شہابیے کے مریخ سے ٹکرانے کے حالیہ واقعہ پر ناسا کے ’ ان سائٹ‘ اور ’ایم آر او‘ مشن سے منسلک سائنس دان انگریڈ ڈوبر نے اپنی حالیہ نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ مریخ پر شہابیے گرنا ایک عام سی بات ہے، لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم اس نوعیت کا کوئی بڑا واقعہ دیکھ سکیں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سب سے حیران کن بات شہابیے گرنے کے علاقے میں برف کی موجودگی ہے کیوں کہ یہ مریخ کا سب سے گرم حصہ ہے اور یہ خط استوا کے قریب ہے۔ہم نے اس سے پہلے یہاں کبھی بھی برف کی شکل میں پانی نہیں دیکھا۔

ناسا کے فلکیاتی امور کے ڈائریکٹر لوری گلیز کہتے ہیں کہ مستقبل میں مریخ پر انسانی آمد و رفت کے تناظر میں وہاں پانی کی موجودگی انتہائی مفید ہے۔ کیونکہ یہ خط استوا کے قریب ایک گرم ترین علاقہ ہے اور ہم اس درجہ حرارت کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

ایم آر او نامی خلائی جہاز مریخ کے مدار میں گزشتہ 16 برسوں سے گردش کر رہا ہے اور اس سیارے کی تصاویر اور دیگر معلومات زمین مراکز کو فراہم کر رہا ہے۔
ایم آر او نامی خلائی جہاز مریخ کے مدار میں گزشتہ 16 برسوں سے گردش کر رہا ہے اور اس سیارے کی تصاویر اور دیگر معلومات زمین مراکز کو فراہم کر رہا ہے۔

لوری گلیز نے کہا کہ ہم اس برف کو کئی طرح سے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم اس سے پانی بنا سکتے ہیں۔ اس سے آکسیجن اور ہائیڈروجن گیس حاصل کر سکتے ہیں۔

مریخ نظام شمسی کا ایک اہم سیارہ

نظام شمسی میں گردش کرنے والے سیاروں میں مریخ چوتھا سیارہ ہے۔ یہ اس نظام کا دوسرا سب سے چھوٹا سیارہ بھی ہے جب کہ سب سے چھوٹا سیارہ عطارد ہے۔

مریخ کا قطر زمین کے قطر کے مقابلے میں تقریباً آدھا ہے۔ اس کی فضا بہت ہلکی ہے اور زمین کے ایک فی صد کے مساوی ہے۔ اس کی کشش ثقل زمین کے تناسب سے 38 فی صد ہے۔

مریخ کے قطبین پر برف کی موٹی تہہ ہے۔ جو اگر پگھل جائے تو پورے سیارے کی سطح 36 فٹ پانی میں ڈوب سکتی ہے۔ فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ کی سطح پر دریاؤں اور ندی نالوں کے نشانات سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہاں ماضی میں کسی نہ کسی شکل میں زندگی موجود تھی۔ بعد ازاں کرہ ہوائی کا دباؤ گھٹنے سے مریخ کی سطح سے پانی غائب اور حیات معدوم ہو گئی۔

مریخ بہت حد تک زمین سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہ سیارہ زمین ہی کی طرح اپنے محور پر قدرے جھکا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہاں موسم پیدا ہوتے ہیں۔ سیارے پر پہاڑ، صحرا اور میدان موجود ہیں اور نظام شمسی کا سب سے بڑا آتش فشاں پہاڑ بھی اسی سیارے میں ہے جس کی بلندی دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ مریخ کا سرخ رنگ اس کی سطح میں بھاری مقدار میں موجود لوہے کے مرکبات کی وجہ سے ہے ۔

سائنس دان اس سیارے کو انسان کے مستقبل کے ایک گھر کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ پانی اور کرہ ہوائی کی موجودگی کے پیش نظر وہاں انسانی بستیاں آباد کی جا سکتی ہیں اور سرخ سیارے کو خلا کی گہرائیوں میں تحقیق کے لیے ایک پڑاؤ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس آرٹیکل کی کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG