امریکہ میں منگل کو مڈٹرم انتخابات کے لیے پولنگ ہو رہی ہے۔ یہ انتخابات نہ صرف یہ تعین کریں گے کہ کانگریس میں کس جماعت کو برتری ملتی ہے بلکہ ماہرین کے مطابق اس سے صدر جو بائیڈن کے عہدے کی باقی ماندہ میعاد کے دوران ملکی سیاست کے خدوخال بھی واضح ہوں گے۔
کروڑوں امریکی شہری ایوان نمائندگان کی تمام 435 نشستوں اور سینیٹ کی 100 میں سے 35 نشستوں کے لیے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ چار کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ووٹر ذاتی طور پر یا بذریعہ ڈاک پہلے ہی ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس برس ڈالے جانےوالے ووٹوں کی تعداد 2018 کے وسط مدتی انتخابات کے ووٹوں سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس وقت ڈیموکریٹس کا کانگریس کے دونوں ایوانوں پر معمولی کنٹرول ہے۔ تاہم پری الیکشن پولنگ سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ری پبلکن ایوانِ نمائندگان اور ممکنہ طور پر سینیٹ میں بھی برتری حاصل کر سکتے ہیں۔
ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر ایک جماعت کے پاس صدارت کا عہدہ ہو اور دوسری کانگریس پر کنٹرول رکھتی ہو تو ایسے میں بعض سیاسی معاملات میں جمود پیدا ہوجاتا ہے۔
ممتاز امریکی سیاسی پولنگ سائٹ "فائیو تھرٹی ایٹ ڈاٹ کام" کے مطابق ری پبلکنز کےسینیٹ جیتنے کے 55 فی صد جب کہ ایوانِ نمائندگان میں ڈیمو کریٹس پر سبقت پانے کے 83 فی صد امکانات ہیں۔
ویب سائٹ نے پیش گوئی کی ہے کہ ری پبلکن پارٹی ایوانِ نمائندگان میں 210 کے مقابلے میں 225 کی برتری حاصل کرنے کے لیے 13 نشستیں حاصل کر لے گی جب کہ سینیٹ میں اس کی نشستوں کی تعداد 51 ہو جائے گی۔
ایک اور پولنگ سائٹ "ریئل کلیئر پالیٹکس ڈاٹ کام" کے مطابق ری پبلکنز سینیٹ میں تین سیٹوں سے سبقت حاصل کریں گے اور ایوان نمائندگان میں ان کی نشستوں کی تعداد میں 14 سے 48 کا اضافہ نشستویں کو اضافہ ہوسکتا ہے۔
تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کے ایک حالیہ سروے نے ظاہر کیا ہے کہ تین چو تھائی ووٹر اس الیکشن میں معیشت کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔
موجودہ حالت پر بات کرتے ہوئے امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست جارجیا کی ایک ووٹر آمنڈا ڈگلس کہتی ہیں کہ سود کی شرح، ہاؤسنگ مارکیٹ اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ تشویش ناک ہے۔
رواں سال جون میں امریکی سپریم کورٹ نے اسقاطِ حمل کے آئینی حق کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ یہ معاملہ بھی امریکی ووٹرز کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
جارجیا ریاست کی ووٹر تھریسا آل مینڈ نے وائس آف امریکہ کو بتایا، "میرے خیال میں ہر کسی کو صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ چاہے ’رو بنام ویڈ‘ کیس میں اُن کا نکتۂ نظر کچھ بھی ہو۔"
جارجیا سے تعلق رکھنے والے ڈیمو کریٹ سینیٹر رافیل وارنوک نے منگل کو ہونے والے انتخابات کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ "جمہوریت خود بیلٹ پر ہے۔"
ان کےمدِ مقابل ری پبلکن حریف ہرشل واکر نے بھی ووٹ کی اہمیت پر زور دیتے کہا کہ یہ ملک کے لیے ضروری ہے۔
جارجیا کے ووٹر ایمیٹ شیڈ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ڈیموکریٹس نے جو کچھ کیا ہے اس کے بعد، میں ملک کو پیچھے جانے نہیں دے سکتا۔
ایوان نمائندگان میں اقلیتی رہنما کیون میک کارتھی نے جو، ری پبلکن اکثریت کی صورت میں ایوان نمائندگان کے اسپیکر بن سکتے ہیں، اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ صدر بائیڈن کے حمایت یافتہ سرکاری پروگراموں کے اخراجات میں کٹوتیوں کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے 'سی این این' کو بتایا کہ ری پبلکن قانون ساز یوکرین کے لیے روسی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے نو ماہ سے جاری امریکی اسلحے اور مالی امداد کا بھی زیادہ باریک بینی سے جائزہ لیں گے۔
خیال رہے کہ یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے کانگریس کی بہت کم بحث کے ساتھ کیف کی حکومت کو 27 ارب ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ اور انسانی امداد بھیجی ہے۔ لیکن میکارتھی کہتے ہیں کہ ری پبلکنز یوکرین کو ضروری امداد کے مزید تجزیے کے بغیر "بلینک چیک" دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دیگر ری پبلکن قانون سازوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کی اپنی مدت کے پہلے دو برسوں کے دوران کارکردگی کی تحقیقات شروع کریں گے۔اس میں خاص طور پر امریکہ کی میکسیکو کے ساتھ جنوبی سرحد کے پار سے ہزاروں غیر دستاویزی تارکین وطن کی آمد کو وہ انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح، سرحدوں کی حفاظت میں ناکام رہے ہیں۔
بعض ری پبلکن قانون ساز صدر کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کی جانب سے یوکرین اور چین میں کاروباری سرگرمیوں پر کانگریس میں سماعت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکی استغاثہ پہلے ہی ہنٹر بائیڈن کے کاروباری معاملات کی تحقیقات کر رہا ہے، لیکن ان پر تاحال کوئی الزام چارج فریم نہیں کیا گیا۔
دریں اثنا، کانگریس پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے بے چین ڈیموکریٹس نے ری پبلکنز پر الزام لگایا ہے کہ وہ کانگریس کا کنٹرول سنبھالنے کی صورت میں معمر امریکیوں کے لیے صحت اور پینشن کی مد میں کٹوتیوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران صدر بائیڈن نے کہاہے کہ یہ انتخابات امریکی جمہوریت کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان انتخابات میں ری پبلکنز کے پارٹی کے اُمیدوار وہ ہیں جنہوں نے دو برس قبل صدارتی الیکشن کے دوران انتخابی نتائج سے متعلق ٹرمپ کے جھوٹے دعوؤں کی حمایت کی تھی۔
صدر بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں نے حالیہ دنوں میں مڈٹرم انتخابات کے لیے پارٹی اُمیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لیا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی تقاریر کے دوران یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ مڈٹرم انتخابات کے بعد 2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے بطور اُمیدوار سامنے آ سکتے ہیں۔
بائیڈن نے بھی اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ وہ دوبارہ صدارتی الیکشن لڑ سکتے ہیں، تاہم اس حوالے سے اُنہوں نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔