مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج کے لیے ایران میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ منگل کے روز احتجاج کے منتظمین نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج کو کچلنے کی کارروائیوں کے تین برس مکمل ہونے پر مظاہرے کے لیے جمع ہوں۔
2019 میں ہلاک ہونے والوں کی یاد منانے کی کال نے 16 ستمبر کر ہلاک ہونے والی 22 سالہ مہساامینی کی موت پر احتجاج میں ایک نئی جان ڈالی دی۔ مہسا امینی حجاب درست طور پر نہ پہننے کے الزام میں ایران کی اخلاقیات سے متعلق پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
اے ایف پی نے تصدیق کی ہے کہ آن لائن وڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ تہران کا ایک بڑا چوک کاروں کے ہارنز اور "آزادی، آزادی" کے نعروں سے گونجتا رہا۔ تہران کے مشہور گرینڈ بازار اور اس کے قریب تہران پارس نامی آبادی میں دکانیں بند رہیں۔
بعد ازاں لوگ دیگر شہروں کی سڑکوں پر بھی نکل آئے جن میں بندر عباس اور شیراز بھی شامل ہیں اور خواتین خاموشی سے اپنے حجاب اتار کر فضا میں لہراتی رہیں۔
منگل کے روز اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ایران سے کہا کہ وہ پر امن مظاہروں میں شریک ہونے والے ہزاروں گرفتار افراد کو رہا کرے جب کہ ایک شخص کو پہلے ہی موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان جیریمی لارنس نے کہا کہ ایران سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف تمام الزامات فوری طور پر ختم کرے اور ایران کو خبرادار کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایران صرف انتہائی سنگین جرائم کی صورت میں ہی سزائے موت کا حکم دے سکتا ہے۔
جنیوا میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے لارنس نے کہا،" ہم حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر پر امن مظاہروں میں شرکت پر گرفتار کیے گئے لوگوں کو رہا کریں اور ان کے خلاف تمام الزامات واپس لیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کا قانون لوگوں کے پر امن اجتماع اور آزادی اظہار کی حفاظت کرتا ہے
ایران میں ’خدا کے خلاف جنگ ‘ اور مبینہ طور پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر ’ئروے زمین پر بد عنوانی‘ کے الزام میں ایک شخص کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے جب کہ کم از کم نو لوگوں پر ایسے الزامات عائد کیے گئے ہیں جن کی سزا موت ہو سکتی ہے۔
( اس خبر میں معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)