دنیا کے سب سے بڑے وائلڈ لائف سمٹ میں شامل ملکوں نے پہلی بار شارک کے fin یا پنکھ کی اس تجارت کو ریگولیٹ کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے جس کے نتیجے میں ہر سال لاکھوں شارک مچھلیوں کوا ن کے پنکھ سے تیار کئے گئے سوپ کی وسیع مانگ کو پورا کرنے کے لئے ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔
وائلڈ لائف کی اس بڑی کانفرنس میں شارک مچھلیوں کی حد سے زیادہ ماہی گیری اور ضابطے کے فقدان, دونوں سے نمٹنے کے لئے اہم اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جو دونوں ہی انہیں معدومیت کے خطرے کی جانب دھکیلنے کا باعث بن رہے ہیں ۔
گارڈین کے مطابق معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں اور پودوں کے تحفظ سے متعلق 186 ملکوں کے کنونشن ،Cites میں کئے گئے اس فیصلے کو جسے سمندری تحفظ کے علمبرداروں نے ایک تاریخی فیصلہ قرار د ے کر اس کا خیر مقدم کیا ہے ، شارک کی 54 اقسام کی کمرشل تجارت کو محدود یا ریگولیٹ کرنے کے لئے کہا گیا تھا ۔
ان اقسام میں ٹائیگر، بل اور بلیو شارکس شامل تھیں جن کے پنکھ کی سب سے زیادہ تجارت ہوتی ہے ۔ گٹا ر فش کی 37 اقسام کے ساتھ ساتھ ہتھوڑے کی شکل کے سروں والی چھ چھوٹی شارکس بھی اس فہرست میں شامل تھیں ۔
اجتماعی طور پر پیش کی گئی تین تجاویز کے مطابق سائٹس کی نگرانی اور کنٹرول کے تحت ہونے والی تجارت میں شارکس کی تقریباْ ان تمام اقسام کو تحفظ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن کی بین الاقوامی تجارت کی وجہ ان کے پنکھ ہوتے ہیں جب کہ سائٹس کی سی او پی 19 سے قبل صرف 25 فیصد شارکس اس فہرست میں شامل تھیں ۔
میزبان ملک پاناماکی جانب سے پیش کی گئی تجویز کے تحت جس کی یورپی یونین کے ملکوں اور برطانیہ سمیت چالیس دوسرے ملکوں نے حمایت کی ہے، جن شارکس کے تحفظ کی پیش کش کی جائے گی وہ فن مارکیٹ میں فن یعنی پنکھ کے لئے فروخت کی جانے والی اقسام کے دو تہائی حصے پر مشتمل ہیں ۔
اس فیصلے کے تحت تجارت کرنے والے ملکوں کے لئے لازمی ہوگا کہ وہ شارک کی ان اقسام کی برآمدسے قبل ان کی قانونی حیثیت اور پائداری کو یقینی بنائیں ۔
شارک کے پنکھ کا سوپ چین ، تائیوان اور جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ حصوں میں پیش کیا جانے والا روایتی سوپ یا اسٹو ہے یہ ڈش عام طورپر شادی بیاہ اور ضیافتوں جیسے خاص مواقع پر پیش کی جاتی ہے
نٹر نیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کی فہرست کے مطابق ہلاک ہونے والی بیشتر شارکس معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں ۔
وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی میں عام شارکس اور شعاعوں والی شارکس کے تحفظ سے متعلق ڈائریکٹر Luke Warwick نے کہا ہے کہ اب، آخر کار ، شارک کے پنکھ کی تجارت کو مکمل طور پر منظم کیا جاسکے گا۔
وارک نے کہا کہ ہر سال شارک کے پنکھ کی نصف ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے جس میں سے نصف حصہ ان دو اقسام کی شارکس کے پنکھ پر مشتمل ہوتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحفظ کے یہ نئے اقدامات شارکس کو بحالی کا موقع فراہم کریں گے اور دنیا بھر کے سمندری شکاریوں کے کنٹرول اور تحفظ کے طریقے تبدیل کر دیں گے ۔
جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ شارک اور رے یا شعاعوں والی سمندری مخلوق کا 37 فیصد معدومی کے خطرے سے دوچار ہے اور صرف گزشتہ پچاس برسوں میں شارک کی آبادیوں میں 70 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے ۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ حدسے زیادہ ماہی گیری اور بین الاقوامی تجارتی ضابطوں کا فقدان شارکس کی آبادیوں میں کمی کی اہم وجوہات ہیں۔
یہ تجویز کسی مخالفت کے بغیر منظور نہیں ہوئی تھی ، جاپان نے ابتدائی فہرست سے شارک کی ان35 اقسام کو نکالنے کی تجویز دی تھی جنہیں ناپید ہونے کا یا معدومی کا ا انتہائیخطرہ لاحق نہیں ہے ۔ جب کہ’ پیرو‘نے بلیو شارک یا نیلی شارک کو فہرست سے خارج کرنے کی درخواست کی تھی۔ یہ دونوں تجاویز درکار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں اور دو گھنٹوں کی بحث کے بعد ابتدائی تجویز کو بغیر کسی تبدیلی کے منظور کر لیا گیا ۔
سائٹس کے تمام رکن ملکو ں کے لئے اس کے تمام فیصلوں کی پابندی لازمی ہے اور انہیں شارکس کے شکار کے اپنے ضابطوں پر ایک سال کے اندراندر عمل درآمد کرنا ہو گا۔
سمندری حیات کے تحفظ سے متعلق ایک غیر منافع بخش ادارے Sea Legacy میں کنزرویشن پالیسی کے ڈائریکٹر Diego Jiménez نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والی تقریباً70 فیصد شارک فیملی کو پہلے ہی معدومی کا خطرہ لاحق ہے ۔
ان کی اقسام کی فہرست سازی سے کسٹم اور بارڈر کنٹرول کے عہدے داروں کو اس فیصلے کے نفاذ میں مدد ملے گی کیوں کہ شارک کے پنکھ کی ہر کھیپ کے لئے لازمی طور پر سائٹس کا اجازت نامہ یا سرٹیفکیٹ درکار ہو گا۔
لیکن سمندری حیاتیات کے ماہرین سمیت ، ناقدین کا کہنا ہے کہ سائٹس کی فہرست سازی کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے، جس سے شارک کے پنکھ اور گوشت کی قیمت میں بلیک مارکیٹ میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ان کا غیر قانونی شکار بڑھ سکتا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد گارڈین سے لیا گیا ہے ۔