ٹوئٹر کے نئے مالک ایلون مسک نے گزشتہ ماہ اپنے اس پلیٹ فارم پر پوسٹ کیا تھا کہ وہ آزادی اظہار کے پابند ہیں۔تاہم جمعرات کو، انہوں نے کئی صحافیوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس کو معطل کر دیا۔
ان افراد میں وائس آف امریکہ کے چیف قومی نمائندے اسٹیو ہرمن کے علاوہ،سی این این، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے سابق بیورو چیف اسٹیو ہرمن کے فالوورز کو ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سیاہ اسکرین اور "اکاؤنٹ معطل" کے پیغام کےساتھ خوش آمدید کہا گیا۔
سی این این، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کے صحافیوں کے اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ کچھ اور صحافیوں نے بھی ایسے ہی پیغامات دیکھے ہیں۔
ان میں سے کئی نامہ نگاروں نے مسک کی جانب سے ٹوئٹر میں کی گئی تبدیلیوں کے بارے میں مضامین لکھے یا پوسٹ کیے ہیں۔
جمعرات کو دیر گئے ان ٹوئٹس کے جوابات میں، مسک نےاپنے پلیٹ فارم پر کہا: " دن بھر مجھ پر تنقید کرنا بالکل ٹھیک ہے، لیکن میری جائےوقوع کا کھوج لگانا اسےشائع کرناا ور میرے خاندان کو خطرے میں ڈالنا درست نہیں ہے۔"
مسک نے مزید کہا: "صحافیوں پر بھی ڈوکسنگ کے وہی اصول لاگو ہوتے ہیں جو ہر کسی پر لاگو ہوتے ہیں،" یہ ٹوئٹر کےان ضوابط کا حوالہ تھا جو ذاتی معلومات شئیر کرنے پر پابندی لگاتے ہیں، جسے ڈوکسنگ کہا جاتا ہے۔
مسک نے اس سے قبل ایک ایسےٹوئٹر اکاؤنٹ، @elonjet، کو معطل کر دیا تھا، جو عوامی طور پر دستیاب معلومات کا استعمال کرتے ہوئے ان کے ذاتی جیٹ طیارے کا تعاقب کرتا تھا، . انہوں نے کہا کہ اکاؤنٹ سےحاصل کردہ معلومات کا استعمال کرتے ہوئے ایک "پاگل اسٹاکر" نے ان کے بیٹے کا پیچھا کیا تھا۔
سی این این کے معتبر ذرائع نے ایک نیوز لیٹر میں کہا ہےکہ اگرچہ جن صحافیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں سے کچھ نے اس واقعے کو رپورٹ کیا تھا، لیکن کسی نے بھی مقام کی معلومات یا مواد شئیر نہیں کیا تھا جسے ڈوکسنگ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
مسک نے جمعرات کو ٹوئٹ کی کہ ڈوکسنگ کی وجہ سے معطلی سات دن تک جاری رہے گی۔ اس کے بعد، ٹوئٹر پر ایک پول کرایا گیا جس میں ٹویٹر کے صارفین سے پوچھا گیا کہ معطل اکاؤنٹس کو کب بحال کیا جانا چاہئے۔
43 فیصد کے فوری بحالی کے حق میں ووٹ دینے کے بعد، مسک نے کہا کہ وہ دوبارہ رائے شماری کرائیں گے کیونکہ پول پر بہت سارے متبادل دستیاب تھے۔
اسٹیو ہرمن اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
اسٹیو ہرمن نے ٹوئٹر پلیٹ فارم کے بارے میں وی او اے نیوز کے لیے آخری بار ستمبر میں رپورٹ کیا تھا۔ جمعرات کو وہ @elonjet کیس کے بارے میں ٹوئٹ کر رہے تھے۔
ہرمن نے VOA کو بتایا، "میں جمعرات کی شام کو اس بڑھتے ہوئےڈرامے کے بارے میں کافی کچھ ٹوئٹ کر رہا تھا، جس کا آغاز ایک ایسےنام نہاد بوٹ اکاؤنٹ کی معطلی کے ساتھ ہوا تھا جو ایلون مسک کے پرائیویٹ طیارےکے مقام کو ٹوئٹ کرتا ہے۔"
اپنی آخری ٹوئٹ میں ہرمن نے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کا لنک پوسٹ کیا اور لکھا، "ٹوئٹر پر جمعرات کی رات صحافیوں کے قتل عام پر مزید ردعمل۔"
کچھ ہی دیر بعد ان کا اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا۔ ہرمن نے کہا کہ وہ اب براہ راست پیغامات نہیں بھیج سکتے اور نہ ہی دوسرے صارفین کی پوسٹس کو پسند کر سکتے ہیں۔
جمعرات کو دیر گئے ایک بیان میں VOA نے تصدیق کی کہ ہرمن کا اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے اسے بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔
وی او اے کے ترجمان نائجل گبز نے ایک ای میل میں کہا"مسٹرہرمن اعلیٰ ترین صحافتی معیارات کو برقرار رکھنے والے ایک تجربہ کار رپورٹر ہیں جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو نیوز اکٹھا کرنے اور نیٹ ورکنگ ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مسٹر ہرمن کو ٹویٹر سے کوئی اطلاع نہیں ملی کہ ان کا اکاؤنٹ کیوں معطل کیا گیاہے۔"
ای میل میں مزید کہا گیا ہے"بطور چیف قومی نامہ نگار، مسٹر ہرمن بین الاقوامی اور قومی خبروں کا احاطہ کرتے ہیں اور یہ معطلی ایک صحافی کی حیثیت سے فرائض انجام دینےکی ان کی اہلیت کو روکتی ہے۔"
سی این این اور نیویارک ٹائمز نے بھی اپنے بیانات میں ٹوئٹر کے اقدام کی مذمت کی ہے۔
ہرمن نےے کہا "یہ واضح طور پر آزاد صحافت کی ایک بڑھتی ہوئی کہانی ہے اور لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اس میں سوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم شامل ہے، ایک ایسا شخص جو میرے خیال میں اب دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے۔ اور یہ سب کچھ امریکہ میں ہمارے آئین، پہلی ترمیم اور جمہوریت کے ساتھ ہو رہا ہے۔‘‘
مضمون کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے آئی ہیں۔