صدر جو بائیڈن نے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی سالگرہ کے موقع پر اتوار کو امریکہ کے فریڈم چرچ میں ایک خطاب کیا جو عہدے پر موجود کسی صدر کا اس چرچ میں پہلا خطاب تھا۔
صدر نے اس تاریخی خطاب میں کہا کہ جمہوریت ایک اہم موڑ پر ہے اور یہ کہ شہری حقوق کے رہنما کی زندگی اورمیراث ہمیں راستہ دکھاتی ہے اور ہمیں اس پر توجہ دینی چاہیئے۔
اتوار کو صدر بائیڈن نے کنگ کے ابینیزر باپٹسٹ چرچ میں خطاب کرتےہوئے ان سوالوں کا حوالہ دیا جو کبھی کنگ نے خود قوم سے پوچھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہاں سے کہاں جائیں گے ؟ آج کے دن میرا قوم کو یہ پیغام ہے کہ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے ہمیں اکٹھے ہونا چاہیے ، جب ہم جمہوریت کو آمریت پر ، ایک عزیز کمیونٹی کو انتشار پر فوقیت دیں ، جب ہم عقائد کے پیروکاروں اور ڈریمرز کا ، کام کرنے والے بننے کا ، بے خوف ہونے کا اور ہمیشہ اپنے عقیدے پر قائم رہنے کا انتخاب کریں ۔
اجتماع ، منتخب عہدے داروں اور معززین سے اپنے خطاب میں بائیڈن نے کہا کہ اس ملک کی روح کے لیے جنگ دائمی ہے ۔ یہ امید اور خوف کے درمیان ، رحمدلی اور ظلم کے درمیان، انصاف اور بے انصافی کے درمیان ایک مستقل جدو جہد ہے ۔
انہوں نے ان کے خلاف بات کی جو نسل پرستی ، انتہا پسندی اور بغاوت کو ہوا دیتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے عدالتوں اور بیلٹ باکسز ، مظاہروں اور دوسرے طریقوں سے جدو جہد جاری تھی ۔ ہماری بہترین کارکردگی سے امریکی وعدہ جیت جاتا ہے لیکن مجھے آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری کار کردگی ہمیشہ بہترین نہیں رہتی ۔ ہم ناکام اور گر جاتے ہیں ۔
ایبینیزر چرچ میں بائیڈن نے یہ خطاب خود کو درپیش ایک نازک موقع پر کیا ہے جب جمعرات کو اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے اس بات کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی وکیل کی تقرری کا اعلان کیا کہ صدر نے 2017 میں نائب صدارت چھوڑنے کے بعد خفیہ دستاویزات کو کیسے ہینڈل کیا۔
وائٹ ہاؤس نے ہفتے کے روز انکشاف کیا کہ اضافی خفیہ دستاویزات ولمنگٹن، ڈیلاویئر کے قریب ان کی رہائش گاہ میں پائی گئیں ۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس بارے میں فیصلے کی گھڑی ہے کہ آیا ہم ایک ایسی قوم ہیں جو آمریت پر جمہوریت کا انتخاب کرتی ہے ؟ یہ سوال پندرہ سال قبل نہیں پوچھا جا سکتاتھا کیوں کہ ہر ایک کا خیال تھا کہ جمہوریت قائم ہو چکی ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کو انتشار پر کمیونٹی کا انتخاب کرنا ہو گا۔ یہ ہمارے وقت کے اہم سوال ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ میں آپ کے صدر کےطور پر یہاں ہوں ۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر کنگ کی زندگی اور میراث ہمیں راستہ دکھائے گی اور ہمیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔
ابینیزر باپٹسٹ چرچ میں ہونے والی اس سروس میں کنگ کی 95 سالہ بہن کرسٹین کنگ فارس سمیت ان کے اہل خانہ نے شرکت کی۔
مریکہ میں شہری حقوق اور نسلی مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی سالگرہ کی تقریبات جمعے سے جاری ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر 15 جنوری 1929 کو پیدا ہوئے تھے لیکن اُن کی یاد میں ہر سال جنوری کے تیسرے پیر کو امریکہ میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
کنگ جونیئر ڈے کی تعطیل نسلی انصاف کے ایجنڈے کے فروغ کا ایک اور سال ہو گا جس میں پولیس اصلاحات سے لے کر حق رائے دہی کو تقویت پہنچانا اور اقتصادی و تعلیمی تفریق کا حل شامل ہو ں گے۔
مارٹن لوتھر کنگ ڈے پر قومی تعطیل پہلی بار 1986 میں کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے ہر سال اس دن ڈاکٹر کنگ کی خدمات کے اعتراف میں امریکہ بھر میں ریلیوں اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس سال اٹلانٹا میں قائم کنگ سینٹر نے جمعرات کو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے بارے میں تقریبات کا آغاز امریکہ میں غیر منصفانہ نظاموں کو تبدیل کرنے کے طریقوں سے آگاہی سے متعلق نوجوانوں او ر بالغ افراد کے آ ن لائن سیمینارز اور کانفرنسوں سے کیا گیاجن کا تھیم تھا ’’اٹ اسٹارٹس ود می‘‘ ، یعنی یہ مجھ سے شروع ہوتا ہے ۔ ان کانفرنسوں اور اجلاسوں کی ریکارڈنگ سینٹر کے سوشل میڈیا اکاؤٹنس پر دستیاب ہے ۔
بوسٹن میں جمعے کے روز مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی یاد میں دس ملین ڈالر کے ایک مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی ۔ بوسٹن وہ شہر ہے جہاں کنگ اپنی اہلیہ کوریٹا اسکاٹ کنگ سے پہلی بار ملے تھے ۔ 1950 کی دہائی میں وہ بوسٹن یونیورسٹی میں تھیولوجی کے ایک طالب علم تھے اور کوریٹا نیو انگلینڈ کنزرویٹری آف میوزک میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔
کنگ جونیئر نے اس وقت سیاہ فام شہریوں کے حقوق کے لیے تحریک کا آغاز کیا تھا جب امریکہ میں ان کے خلاف نسلی تعصب عروج پر تھا۔ڈاکٹر کنگ کی پرامن تحریک نے حکومت اور اداروں کو اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔
پندرہ جنوری 1929 کو ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں پیدا ہونے والے مارٹن لوتھر کنگ نے 1955 میں شہری حقوق کی ایک تنظیم کا آغاز کیا تھا اور بہت جلد اُنہوں نے سیاہ فام طبقات اور اُن کے حامی سفید فاموں میں مقبولیت حاصل کر لی تھی۔
امریکہ میں اس دور میں نسلی تعصب عروج پر تھا اور عوامی مقامات پر بھی سیاہ فام افراد کو سفید فام سے الگ تھلگ رکھا جاتا تھا۔ تاہم مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اس تفریق کو ختم کرنے کی جدوجہد شروع کی اور یکساں حقوق کے حصول کے لیے عدم تشدد پر مبنی تحریک کا آغاز کیا۔
سن 1950 کے عشرے میں کنگ جونیئر اُس وقت مزید مشہور ہوئے جب ریاست الاباما کے شہر منٹگمری میں ایک سیاہ فام خاتون روزا پارکس نے سفید فام شخص کے لیے بس میں سیٹ خالی کرنے سے انکار کر دیا جس پر اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔
مارٹن لوتھر کنگ اور اُن کے ساتھیوں نے اس پر بھرپور احتجاج کیا اور 10 روز تک سیاہ فام افراد اور اُن کے حامی سفید فام لوگوں نے بسوں کا بائیکاٹ کیا۔اس احتجاج کے بعد حکام کو بسوں میں امتیازی سلوک برتنے پر مبنی یہ روایت ختم کرنا پڑی۔ یہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور اُن کی تحریک کی بڑی کامیابی تھی۔
اگست 1963 تک نسلی مساوات کے لیے کی جانے والی یہ جدوجہد امریکہ بھر میں پھیل چکی تھی۔ اس دوران دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی تک مارچ کا اعلان کیا گیا جس میں شریک سیاہ و سفید فام لوگوں کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔ یہ احتجاج پُر امن تھا جس میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
اس مارچ سے ڈاکٹر کنگ کا مشہور خطاب ’’'آئی ہیو اے ڈریم‘‘ بنیادی طور پر ملک کے جنوب تک پھیلی ہوئی سیاہ فاموں کی تحریک کا پر اثر پیغام تھا جس نے ملک بھر میں شہری حقوق کی جدوجہد کا روپ اختیار کر لیا۔
پنے ایک یادگار جملے میں کنگ نے اِس امید کا اظہار کیا کہ ’’ایک دِن آئے گا جب معصوم سیاہ فام لڑکے اور لڑکیاں چھوٹی عمر کے سفید فام لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ بھائی بہن کے طور پر ہاتھ ملا سکیں گے۔‘‘
انہوں نے 1964 کے سول رائٹس ایکٹ ، 1965 کے ووٹنگ رائٹس کے ایکٹ کی منظوری میں مدد کی تھی۔
کئی عشروں سے جب سے کنگ ڈے کی تعطیل شروع ہوئی ہے یہ دن منتخب عہدے داروں اور امیدواروں کے لیے سول رائٹس اور سماجی انصاف کے حوالے سے اپنی خدمات کے بارے میں بات کرنے کا ایک موقع بن گیا ہے ۔
ڈاکٹر کنگ جونیئر کو اُن کی خدمات کے اعتراف میں 1964 میں امن کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔
ا س دوران وہ امریکہ میں محروم طبقات اور مزدوروں کے احتجاج میں شریک ہوتے رہےتھے۔ وہ تین اپریل 1968 کو سینیٹری ورکرز کی ہڑتال میں شرکت کے لیے ریاست ٹینیسی پہنچے تھے جہاں چار اپریل 1968 کو شہر میمفس کے ایک ہوٹل میں اُنہیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
لورین ہوٹل کو جہاں مارٹن لوتھر کنگ رہائش پذیر تھے اب سول رائٹس میوزیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور ہر سال وہاں اُن کی یاد میں تقریب منعقد کی جاتی ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے۔