پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی بن عواض عسیری کے اسلام آباد میں ایک سیمینار کے دوران انتہا پسندی اور دہشت گردی سے متعلق بیان نے پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ پاکستان پر اس کے کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔
چند روز قبل سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات پر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد میں ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے سابق سعودی سفیر نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے اسلام کے نام کو استعمال کر کے اس کے تشخص کو خراب کیا۔
سعودی سفیر نے اس سوال کے جواب میں یہ بات کہی تھی جس میں اُن سے پوچھا گیا تھا کہ سعودی عرب میں جاری ثقافتی اور مذہبی اصلاحات کا پاکستان پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
خیال رہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے ویژن 2030 کے نام سے اصلاحات شروع کر رکھی ہیں جس کے تحت وہ سعودی عرب کو ترقی اور جدت کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے اور عوامی مقامات پر عبایا کی پابندی ختم کر دی گئی ہے جب کہ سعودی عرب کو سیاحت کے لیے پرکشش بنانے اور جدید شہر بسانے کا منصوبہ ویژن 2030 میں شامل ہے۔
ڈاکٹر علی بن عواض عسیری نے کہا کہ سعودی عرب کی قیادت ایک عزم کے ساتھ نہ صرف اعتدال پسندی کی طرف گامزن ہے بلکہ عوام کو اسلام کی حقیقی تعبیر سے آگا ہ کیا جارہا ہے۔
روایتی طور پر سعودی معاشرہ روایت پسند او ر مذہبی رہا ہے اور ایک خاص مذہبی مکتب فکر کی سوچ کے غلبے کی وجہ سے سعودی معاشرہ ایک بڑے عرصے تک قدامت پرستی کی راہ پر گامزن رہا ہے۔ لیکن 80 کی دہائی میں شروع ہونے والے افغان جہاد اور نائن الیون کے حملوں کے بعد سعودی عرب کو بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے چیلنج کا سامنا رہا ہے۔
سابق سعودی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عر ب کی موجودہ قیادت نے اعتدال پسندی کی طرف پیش رفت کی ہے اور اب اسلام کے حقیقی پیغام کا اظہار مساجد سے ہونے والے خطبوں میں بھی نظر آتا ہےاور خواتین کو باہر نکلنے کی آزادی ہے۔
ماہرین کے مطابق افغان جہاد میں پاکستان اور سعودی عرب کا نمایاں کردار رہا ہے اور جنگ ختم ہونے کے بعد یہ خیال کیا گیا کہ پہلے کی طرح اب بھی غیر ریاستی عناصر ان ممالک کے کنٹرول میں رہیں گے لیکن اس کے برعکس یہ عناصر دونوں ممالک کے لیے ایک سنگین چیلنج بن گئے۔
امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد دہشت گردی اور انتہا پسندی ایک عالمی چیلنج بن کر سامنا آیا جس نے سعود ی عرب اور پاکستان کے معاشر ے پر بھی سنگین اثرات مرتب کیے۔
کیا سعودی عرب میں ہونے والے یہ تبدیلی پاکستان اور پاکستانی معاشرے پر اثر انداز ہو سکتی ہے جہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور جو سعودی کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس پر وائس آف امریکہ نے پاکستان اور سعودی عرب کے روابط پر نظر رکھنے والے مبصرین سے بات کی ہے۔
کیا سعودی عرب میں اصلاحاتی پروگرام کا پاکستان پر بھی اثر ہو گا؟
مذہبی اور سماجی امور کے محقق خورشید ندیم سعودی عرب میں مذہبی ، سماجی اور ثقافتی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور اصلاحات کو اہم قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کے بقول دونوں ممالک کے بعض چیلنج مشترک ہونے کے باوجود ان سے نمٹنے کا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے۔
ان کےبقول پاکستانی معاشرے کی سماجی صورتِ حال سعودی عرب سے مختلف ہے۔
خورشید ندیم کہتے ہیں کہ پاکستان کا معاشرہ تاریخی طور پر اعتدال پسند رہا ہے اور ماضی میں مذہب میں انتہا پسندی کے رجحانات موجود نہیں رہے ، شدت پسندی کے رجحانات گزشتہ چند دہائیوں کے دوران سماج پر اثر انداز ہوئے ہیں۔
خورشید ندیم کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب میں اٹھارویں صدی میں مذہبی رہنما محمد بن عبدالوہاب کی اسلامی تحریک اٹھی مگر برصغیر میں اس سے زیادہ لوگ متاثر نہیں ہوئے۔
لیکن جب 1979 میں ایک عالمی ایجنڈے کے تحت اسلامی ملکوں کے غیر ریاستی عناصر نے افغان 'جہاد' میں حصہ لیا تو اس نے پاکستانی معاشرے پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔
خورشید ندیم کہتے ہیں کہ اسی دوران 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب بھی آیا ۔ ان دو بڑی تبدیلیوں نے 10 برسوں میں پاکستانی معاشرے کو بدل کر رکھ دیا گیا اور ریاست کی سطح پر جہاد کے بیانے کی وجہ سے پاکستان میں کئی مذہبی گروپ زیادہ مضبوط ہوئے ۔
اُن کے بقول اسی بنیاد پر سعودی عرب نے پاکستان میں بعض مذہبی گروپوں کی مدد کرنی شروع کر دی۔
دوسری جانب اس صورتِ حال اور خطے میں بعض ممالک کی پراکسی جنگ کی وجہ سے بعض مذہبی گروہوں کی شدت پسندی سے پاکستان معاشرے میں بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے رجحان میں اضافہ ہوا۔
'پاکستان میں انتہا پسندی کا بتدریج خاتمہ ہی ممکن ہے'
سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ جب پاکستان میں ریاست کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے کچھ مذہبی گروپوں اور افراد کو طاقت ور ہونے کا احساس دے گیا ہے ، اس کی بتدریج واپسی تو ممکن ہے لیکن یہ عمل فوری نہیں ہوسکتا۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں ہونے والی حالیہ سماجی اور مذہبی اصلاحات اگرچہ ایک حوصلہ افزا امر ہے لیکن پاکستان کے چیلنج مختلف ہیں۔
ان کے بقول پاکستان اور سعودی عرب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ریاست مذہب کو کنٹرول کرتی ہے لیکن ہمارے ہاں مذہب ریاست پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں مساجد کا نظم و نسق ریاست کے کنٹرول میں ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان میں معاشی او ر اقتصادی مشکلات کی وجہ سے ملک میں غربت اور پسماندگی کو جلد دور کرنا آسان نہیں ہے اور اس لیے اصلاحات کی استعداد محدود ہے۔
دوسری جانب ، پاکستان کے لیے کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے بھارت سے تنازع ہے اس طرح کی مسائل کی وجہ سے بھی ملک میں اعتدال پسندی کو فروغ دینے کی ریاست استعداد کار محدود ہو جاتی ہے۔
لیکن حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان میں ان معاملات پر کھل کر بات ہورہی جو ایک حوصلہ افزا بات ہے جب کہ ماضی میں ایسے معاملات پر بات کرنا مشکل تھی۔
'پاکستان میں جمہوری طریقے سے ہی تبدیلی ممکن ہے'
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ سعود ی عرب میں بے انتہا گھٹن کا ماحول موجود رہا ہےاور وہاں شدت پسندی اور قدامت پرستی کی سوچ ایک طویل عرسے سے موجود تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ چند برسوں میں سعودی قیادت کو یہ احسا س ہوا کہ معاشرے کو جدید دور کے بعض تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ معاشرے میں شدت پسندی اور قدامت پرستی کے اثرات کم ہو سکیں۔
اُنہوں نے کہا کہ سعودی عر ب میں خواتین پر عائد کچھ پابندیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ لیکن پاکستانی معاشرے میں میں تو خواتین کئی عشروں سے معاشرے میں سرگرم ہیں۔
خورشید ندیم کہتے ہیں کہ سعودی عر ب میں ایک انتظامی حکم کے تحت مذہب کے کردار کو زیادہ اعتدال پسند بنایا جا سکتا ہے لیکن پاکستان میں کسی ایگزیکٹو آرڈؑر کے ذریعے یہ ممکن نہیں ہے۔
خورشید ندیم کہتے ہیں کہ شاید سعودی معاشرے میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے اثرات پاکستان پر مرتب نہ ہوں کیوں کہ پاکستان کی سماجی ہیت سعودی عرب سے مختلف ہے۔
سعودی عرب میں مذہبی رجحانات سے پاکستان میں اثرات اس وقت مرتب ہونے شروع ہوئے جب پاکستانی شہریوں نے روزگار کے لیے یہاں کا رخ کیا لیکن ان اثرات میں اس وقت زیادہ تیزی آئی جب افغان جہاد شروع ہونے کے بعد یہاں بعض مکاتب فکر کے مدرسوں کو فروغ ملا ۔
تاہم بعض ماہرین کا خٰیال ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والی حالیہ اصلاحات کی وجہ سے بیرون ممالک سے بعض پاکستانی مدرسوں کو ملنے والے تعاون میں کمی آسکتی ہے۔
خورشید ندیم کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان میں مذہبی طور پر بنیاد پرست عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہوں گی اور ان کےبقول شاید ان کو اس طرح کی فنڈنگ حاصل نہ ہو سکے گی جو ماضی میں انہیں میسر تھی۔
کیا پاکستان میں مساجد اور مدارس کو ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے؟
سعودی عرب اور کئی دیگر ممالک میں مذہبی معاملات کو ریاست ریگولیٹ کرتی ہے لیکن پاکستان میں نو آبادیاتی دورسے ہی مساجد کو خود مختاری حاصل رہی ہے۔
اگرچہ 1960 کی دہائی میں پاکستان کے سابق صدر ایوب کے دور میں محکمہ اوقاف بنا کر مساجد کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ جب بھی پاکستان میں ایسی کوئی کوشش کی جاتی ہے تو سیاسی طور اس پر اتفاق رائے پید کرنا مشکل ہے کیوں کہ سیاسی قیادت اور مذہبی حلقے اس بارے میں واضح طور پر منقسم ہیں۔
قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ پاکستان سعودی عرب، قطر اور ترکیہ کی طر ح یہ پابندی تو نہیں لگا سکتا کہ جمعے کا ایک مرکزی خطبہ ہو لیکن ان کو ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے کہ خطبوں میں کوئی نفرت انگیز مواد نہ ہو۔
قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ پیغام پاکستان کی دستاویز جو تمام اسٹیک ہولڈرز اور تمام مکاتب فکر کے علما کی تائید سے مل کر تیار کی گئی ہے وہ بھی ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے کہ معاشرہ جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں مکالمے کو فروغ دے کر معاشرے کو معتدل کر سکتے ہیں لیکن سعودی عر ب کی طرح یہاں کوئی سنگل اتھارٹی موجود نہیں ہے یہاں سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور ایک جمہوری معاشرہ ہے لیکن ہم مکالمے کے ذریعے تبدیلی لا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ جنوری 2018 میں 'پیغامِ پاکستان' کے عنوان سے دہشت گردی کے خلاف جاری کیے جانے والے ریاستی بیانیے پر سینکڑوں علما اور مذہبی دانش وروں نے دستخط کیے تھے جس میں پاکستان خودکش حملوں، شدت پسندی اور خونریزی کو 'فساد فی الارض' قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ریاست ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
خورشید ندیم کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی صورتِ حال رہے گی کیوں کہ طالبان جس مذہبی نکتہ نظر کومانتے ہیں اس کی بنیادیں اور حامی پاکستان میں بھی موجود ہیں ۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں کابل میں طالبان کی واپسی کی وجہ سے کالعدم شدت پسند تحریک طالبان پاکستان ' ٹی ٹی پی ' کو بھی شہہ ملی کہ وہ بھی بندوق کے زور پر اپنی نطریات کی ترویج کر سکتے ہیں۔ طالبان پاکستانی مدرسوں کے پڑھے ہوئے ہیں اور پاکستان کے بعض مذہبی طبقوں میں ان کے لیے ایک فکری حمایت بھی موجود ہے۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ جب تک افغانستان کی صورتِ حال مستحکم نہیں ہوتی تو پاکستان کے لیے مسائل رہیں گے لیکن انہوں نے کہا کہ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔
پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانہ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ پیغام پاکستان ایک متفقہ پیغام ، بیانیہ اور دستاویز ہے اور ا ب پاکستان کی سمت درست ہے ، بین المذاہب اور بین الا مسالک مکالمے کو فروغ دیا جارہا ہے۔
اُنہوں نے کہا پاکستا ن گزشتہ 40 سے زائد عرصے میں افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان ایک حالت جنگ میں رہا ہے اور اس کے اثرات پاکستان پر زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ اس وجہ سے کئی عوامل کی وجہ سے پاکستان کا مختلف چیلنج درپیش ہیں پاکستان کی معاشی اور اقتصادی مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں لیکں انہوں نے کہا ہم تبدیلی کی طر ف جارہے ہیں۔