سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بتایا ہے کہ ایک دہائی میں پہلی بار مملکت سعودی عرب ، جنگ زدہ ملک شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے لیے اس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، یہ خطے میں ایک تازہ ترین ترین سفارتی تبدیلی ہے۔
سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان بیجنگ میں چین کی ثالثی میں ہونے والی اس بات چیت کے بعد سامنے آیا جس کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران برسوں کی کشیدگی کے بعد ایک دوسرے کے ملک میں سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر رضامند ہوئے۔
شام کے صدر بشار الاسد صرف ایران اور روس کی مدد سے بحیرہ روم کے ملک میں اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھے ہوئے ہیں جو 2011 کی عرب اسپرنگ تحریک سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن نے جمعرات کو دیر گئے ایک رپورٹ نشر کی، جس میں ملک کی وزارت خارجہ کے ایک نامعلوم اہل کار کے حوالے سے، مملکت سعودی عرب اور دمشق کے درمیان ہونے والی بات چیت کا اعتراف کیا گیا۔
وزارت خارجہ کے ایک ذریعہ نے الاخباریہ کے لیے انکشاف کیا کہ جو تبادلہ خیال اس وقت جاری ہے اس کا آغاز شام کی وزارت خارجہ کے ساتھ ہوا۔جس میں کچھ بین الاقوامی میڈیا پر نشر ہونے والی باتوں پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ مملکت کے حکام اور شام میں ان کے ہم منصبوں کے درمیان قونصلر خدمات کی فراہمی کو دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔
عربی زبان کا میڈیا سعودی سرکاری ٹی وی کے اعلان سے قبل حالیہ دنوں میں ممکنہ طور پر کشیدگی میں کمی کے بارے میں اطلاعات دے رہا تھا۔ وال سٹریٹ جرنل نے نا معلوم سعودی اور شامی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ ان ممالک کے سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے مذاکرات روسی ثالثی کا نتیجہ ہیں۔
شام کے سرکاری میڈیا نے فوری طور پر مذاکرات کا اعتراف نہیں کیا ہے۔سعودی عرب اور شام دونوں جگہ حکام نے جمعہ کوایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
قبل ازیں جمعرات کو، روسی صدر ولادی میر پوٹن نے اومان کے سلطان ہیثم بن طارق کو فون کیا، جسے کریملن نے دونوں ملکوں کے درمیان ’’سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے پہلا اعلیٰ سطحی دوطرفہ رابطہ‘‘ قرار دیا۔ مسقط نے 1985 میں سوویت یونین کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔
اومان طویل عرصے سے مغرب اور ایران کے درمیان بات چیت کرانے والا ملک رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں یمن کی طویل عرصے سے جاری جنگ پر اومان میں بات چیت ہوئی ہے، جس میں سعودی عرب نے ملک کی جلاوطن حکومت کی ،ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف حمایت کی ہے جو اس کے دارالحکومت صنعا پر قابض ہیں۔
سعودی عرب نے 2011 میں شام میں شروع ہونے والی شورش میں جو خانہ جنگی میں بدل گئی ، اسد کے خلاف شامی اپوزیشن کی حمایت کی۔ تاہم حالیہ دنوں میں علاقائی سطح پر میل جول بڑھا اور پھر شام اور ترکی میں گزشتہ ماہ کے تباہ کن زلزلے نے بین الاقوامی ہمدردی کو جنم دیا جس نے اس عمل کو تیز کیا،اور سعودی اور دیگر عرب ممالک نے دمشق کو امداد بھیجی۔
اسد نے فروری کے آخر میں اومان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اتوار کو متحدہ عرب امارات کا سفر بھی کیا،جو ایک اورایسا ملک ہے جس نے ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش کرنے والے جنگجوؤں کی حمایت کی تھی۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے عوامی سطح پر اعتراف کیا ہے کہ عرب ممالک میں اس بات پر اتفاق رائے بڑھ رہا ہے کہ دمشق کے ساتھ بات چیت ضروری ہے۔ اور عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے کہا ہے کہ سعودی عرب مئی میں عرب لیگ کے اگلے سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، جہاں زیادہ تر ریاستیں امید کر رہی ہیں کہ شام کی رکنیت بحال ہو جائے گی، جو 2011 میں معطل کردی گئی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں چین اور روس کی دلچسپی امریکی حکام کے لیے طویل عرصے سے تشویش کا باعث رہی ہے، جو اس خطے کو توانائی کی عالمی قیمتوں کے لیے اس کے باوجودانتہائی اہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ پہلے سے کہیں زیادہ اپنے ملک میں خام تیل نکال رہا ہے اور سعودی تیل پر اتنا انحصار نہیں کرتا جتنا کہ اس پر پہلے کرتاتھا۔ تھا۔سعودی عرب روس کے قریب ہو گیا ہے کیونکہ ماسکو نے کرونا وائرس کی وبا کے دوران، تیل کی عالمی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے اوپیک کی طرف سے پیداوار میں کٹوتیوں کی حمایت کرنے کے لیےاتحادیوں کو اکٹھا کیا۔
اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں ادارے اے پی سے لیا گیا ہے۔