بھارت نے منگل کو چین کی جانب سے ان جگہوں کے نام تبدیل کرنے کو مسترد کر دیا جنہیں بھارت اپنی مشرقی ریاست اروناچل پردیش کا حصہ سمجھتا ہے،اورجس پر چین کا اپنے علاقے کا حصہ ہونے کا دعویٰ ہے۔
چین اور بھارت نے 1962 میں اپنی 3,800 کلومیٹر طویل سرحد کے کچھ حصوں پر جنگ لڑی تھی اور حالیہ برسوں میں پہاڑی علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں نے جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ے تعلقات کو شدید تناؤ کا شکار کر دیا ہے۔
برہم الفاظ کا تازہ ترین تبادلہ اتوار کو اس وقت ہوا جب چین کی شہری امور کی وزارت نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس نے کہا کہ اس نے پانچ پہاڑوں سمیت 11 مقامات کے ناموں کو "اسٹینڈرڈائز" کر دیا ہے، جسے چین اپنا جنوبی تبت علاقہ کہتا ہے۔
بیان میں ایک نقشہ بھی شامل تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ چین نے 11 جگہوں کا نام بدل کر انہیں"زنگنان" یا چینی زبان میں جنوبی تبت کے اندر رکھا ہوا ہے۔
اروناچل پردیش کو جنوبی تبت میں شامل کیا گیا ہے اور بھارت کے ساتھ چین کی سرحد کی حد بندی دریائے برہم پترا کے بالکل شمال میں کی گئی ہے۔
بھارت نے چین کے دعویٰ کو مسترد کر دیا
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے ٹوئٹر پر کہا، ’’اروناچل پردیش بھارت کا اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ ہے، رہا ہے اور رہے گا۔"
لیکن چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ نام کی تبدیلیاں ’’مکمل طور پر چینی اقتدار اعلیٰ کے دائرہ کار میں ہیں‘‘۔ ترجمان ماو ننگ نے منگل کو بیجنگ میں ایک باقاعدہ میڈیا بریفنگ میں کہا کہ جنوبی تبت کا علاقہ چینی علاقہ ہے۔
2020 میں جب فریقین کی سرحد کے مغربی حصے پر واقع لداخ کے علاقے میں جھڑپ ہوئی تو کم از کم 24 فوجی مارے گئے تھے لیکن سفارتی اور فوجی مذاکرات کے بعد صورت حال پرسکون ہو گئی۔
پچھلے سال دسمبر میں، اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں دونوں اطراف کے فوجیوں میں ہاتھا پائی ہوئی تھی۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ لداخ کی صورت حال نازک اور خطرناک تھی، کچھ جگہوں پر فوجی دستے ایک دوسرے کے بہت قریب تعینات تھے۔
یہ رپورٹ خبر رساں ادارے رائٹرز کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے۔