پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید کا معاملہ زیرِ غور ہے۔معتبر ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے سعودی عرب کی درخواست پر حکومتِ پاکستان 53 ہزار سے زائد روہنگیا افراد کے پاسپورٹ کی تجدید پر غور کر رہی ہے۔
پاکستانی پاسپورٹ پر سعودی عرب میں موجود روہنگیا افراد کے لیے جہاں یہ پیش رفت خوش آئند ہے وہیں کئی افراد اس بارے میں تنقید کر رہے ہیں کہ پاکستان نے روہنگیا افراد کو پاسپورٹ کیوں جاری کیے تھے۔
روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ عطا الرحمن پاکستان سے سعودی عرب گئے تھے لیکن قانونی دستاویز نہ ہونے کے سبب وہ گزشتہ اٹھارہ سال سے پاکستان نہیں آ سکے جس کی وجہ ان کے پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید نہ ہونا بتائی جاتی ہے۔
روہنگیا افراد پاکستان سے سعودی عرب کیسے گئے اور اگر وہ میمانمار سے سعودی عرب چلے گئے ہیں تو انہیں پاکستانی پاسپورٹ کب اور کیسے جاری کیا گیا؟
انہی سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے پاکستان کی وزارتِ داخلہ، پاکستان اور سعودی عرب میں موجود روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں سے ہم نے بات کی ہے۔لیکن اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ روہنگیا کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے کا سلسلہ 1970 کی دہائی میں سابق فوجی صدر ضیاالحق کے دورِ حکومت میں سعودی عرب کی درخواست پر روہنگیا کو پاکستانی پاسپورٹ جار ی کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔
جن روہنگیا افراد کے پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید کی بات کی جا رہی ہے یہ وہی افراد ہیں جنہیں ماضی میں پاسپورٹ جاری کیے گئے تھے۔ لیکن اب حکومتِ پاکستان نے ان کے پاسپورٹ کی تجدید روک دی تھی۔
پاکستان کے معتبر ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے سعودی عرب کی درخواست پر اب 53 ہزار سے زائد روہنگیا افراد کے پاسپورٹ کی تجدید کی تجویز پر وفاقی حکومت غور کر رہی ہے۔
سرکاری اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پاکستان کو کہا گیا تھا کہ روہنگیا افراد کی سعودی عرب میں مستقل سکونت کے لیے اقامہ جاری کیا جائے گا لیکن ابھی تک اس معاملے میں پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس سلسلے میں پاکستان میں سعودی سفارتخانے سے رابطہ کیا لیکن تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔
لیکن حال ہی میں سعودی نائب وزیر داخلہ ڈاکٹر ناصر بن عبدالعزیز الداؤد نے اپنے اسلام آباد کے دورے میں پاکستانی حکام سے ملاقات میں روہنگیا افراد کے پاسپورٹ کی تجدید کا معاملہ اُٹھایا تھا تاکہ اُنہیں قانونی حیثیت حاصل ہو سکے۔
روہنگیا برداری کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟
پاکستان میں مقیم روہنگیا برداری کی تنظیم روہنگیا سالیڈیرٹی آرگنائزیشن کے صدر نور حسین ارکانی نے بتایا کہ پاکستان میں روہنگیا افراد کی آمد کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب برما (میانمار)میں جنرل نی ون کے مارشل لا کے دوران اُن کی برادری کو مشکلات کا سامنا تھا۔ ایسے میں پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے انسانی ہمدرددی کی بناد پر انہیں اُس وقت کے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) آنے کی اجازت دی تھی۔
روہنگیا برادری میانمار کے مغربی صوبے راکھین میں کئی صدیوں سے مقیم ہیں لیکن میانمار حکومت نے انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
نور حسین ارکانی کہتے ہیں کہ 1960 کی دہائی کے بعد بھی ان روہنگیا افراد کا دوسرے ممالک ہجرت کا سلسلہ جاری رہا اور یہ سعودی عرب، پاکستان اور بنگلہ دیش منتقل ہو گئے۔
پاکستان آنے والے روہنگیا نے کراچی میں قیام کے دوران پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کر لیا تھا۔ جس کے بعد ان کی ایک بڑی تعداد ملازمت کے لیے سعودی عرب بھی گئی۔
نور حسین ارکانی کے مطابق ایسے روہنگیاؤں کی ایک بڑی تعداد پاکستان اور سعودی عرب میں تقسیم ہے اور ان میں عطاالرحمان کا خاندان بھی شامل ہے۔
عطاالرحمن نے سعودی عرب سے وائس آف امریکہ سے فون پر گفتگو میں بتایا کہ 2015 سے ان کے پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید نہیں ہوئی اور وہ کراچی میں موجود اپنے خاندان سے ملنے کے لیے پاسپورٹ کی تجدید کے منتظر ہیں ۔
عطاالرحمن کے بقول 1960 کے اوئل میں ان کے خاندان نے میانمار سے پاکستان ہجرت کی تو ان کی عمر پانچ سال تھی اور بعدازاں وہ 1977 میں پاکستانی پاسپورٹ پر سعودی عرب چلے گئے تھے۔
ایک اور سرکاری ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ روہنگیا افراد کے پاسپورٹ کی تجدید کا معاملہ نہایت پیچیدہ ہے اس کے معاشی اور قانونی مضمرات ہیں کیوں کہ پاسپورٹ کی تجدید سے وہ پاکستان تو آسکتے ہیں لیکن اس مسئلے کا ایک کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی ایک ایسے ہیں جن کے بچوں کے پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں ہے۔
وزیراعظم کے مشیر مولانا طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے روہنگیا افراد کے پاسپورٹ کی تجدید کے معاملے پر بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بڑی تعداد میں روہنگیا سعودی عر ب میں مقیم ہیں اور سعودی حکومت نے پاکستان سے پاسپورٹ کی تجدید کی درخواست کی تاکہ انہیں باضابطہ طور پر ایک قانونی شناخت حاصل ہو سکے۔
مولانہ طاہر اشرفی کے مطابق اب پاکستانی اور سعودی حکام پر مشتمل ایک کمیٹی اس معاملے کو حل کر لےگی۔
'پاسپورٹ کی تجدید کرنا پاکستان کی صوابدید ہے'
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی شخص کو پاسپورٹ جاری کرنا اُس ملک کی صوابدید ہے۔ پہلی بار پاکستان نے یہ پاسپورٹ مخصوص حالات میں جاری کیے تھے لیکن ان کی تفصیل کبھی بیان نہیں کی گئی ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ ماضی میں پاکستان نے روہنگیا برادری کو پاسپورٹ انسانی بنیادوں پر جاری کیے تھے اور اب یہ واضح نہیں کہ کن بنیادوں پر ان کی تجدید کی جائے گی۔
عالمی سطح پر لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کی پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں ہے اور ان میں میانمار کے روہنگیا برداری کے لوگ بھی شامل ہیں کیوں کہ اُن کا میانمار سے ہجرت کا سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ ایک بڑ ی تعداد میں روہنگیا کئی دیگر ممالک میں مقیم ہیں جن کے پاس کسی ملک کی شناخت نہیں اور ایک سرکاری اندازے کے مطا بق پاکستان میں روہنگیا کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں زیادہ تر کسی شناختی دستاویز کے بغیر گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی میں مقیم ہیں۔
اگرچہ سندھ میں بعض حلقوں کی طرف سے روہنگیا افراد کے پاسپورٹوں کی تجدید کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن حسن عسکری کہتے ہیں کہ جن روہنگیا افراد کو ماضی میں پاکستان نے بہت کم تعداد میں پاسپورٹ جاری کیے تھے اور اگر دوبارہ ان کی تجدید کی جاتی ہے تو یہ تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے کہ اس سے پاکستان میں آبادی کے تناسب پر کوئی اثر پڑ سکے ۔