سعودی عرب اپنی وجہ شہرت کو تبدیل کرنے کے مشن پر ہے۔ ایسی کوششیں سپورٹس ، اینٹرٹینمنٹ اور فیشن کی دنیا میں سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی دلچسسپی سے واضح ہو رہی ہیں۔ رواں ہفتے پیرس میں ہونے والے فیشن ویک میں پہلے سعودی ڈیزائنر نے شرکت کر کے ایسا ہی ایک نیا سنگ میل طے کیا ہے ، جبکہ سپورٹس کی دنیا کے پنڈت یہ بتا رہے ہیں کہ قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کے بعد اب سعودی عرب بھی بڑے سپورٹس ایوینٹس کو سپانسر کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
سعودی ڈیزائنر محمد آشی نے اس ہفتے پیرس کے رٹز ہوٹل میں پیرس فیشن ویک کی تقریب میں سعودی عرب کی نمائندگی کی۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ انہوں نے کسی بڑے فیشن ایونٹ میں سرکاری طور پر شرکت کی ہے ۔
سعودی فیشن ڈیزائنر کا یہ کہنا ہے کہ ان کے تیار کردہ ملبوسات دنیا بھر کی ممتاز شخصیات مختلف تقریبات میں زیب تن کر چکی ہیں جن میں امریکی گلوکارہ بیانسے اور بالی ووڈ کی اداکارہ دیپیکا پڈوکون سے لے کر اردن کی ملکہ رانیا تک شامل ہیں۔ لیکن ان کے کلائنٹس کویہ بات چند سال قبل ہی معلوم ہوئی کہ وہ در اصل سعودی عرب کے پہلے بڑے ڈیزائنر ہیں، کیوں کہ وہ ایک عرصےسے فرانس میں مقیم تھے اور بڑے بڑے برانڈز کے ساتھ وابستہ تھے ۔
اب جب سعودی عرب سماجی تبدیلیوں کے مراحل سے گزر رہا ہے، آشی کو فیشن کی مقامی صنعت کی ترقی میں مدد کےلیے 2020 میں قائم کیےگئے سعودی عرب کے فیشن کمیشن میں ایک راہنما کے طور پر شامل کیا گیا ہے ۔
فیشن کا شعبہ سعودی عرب کے ڈیفیکٹو حکمران، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی اس حکمت عملی کا صرف ایک حصہ ہے جس کے تحت وہ سلطنت میں ڈرامائی سماجی تبدیلیاں لانے کے لیے تیل کی دولت کا رخ فلموں ، کھیل، ویڈیوگیمز اور سیاحت کی طرف موڑ رہے ہیں۔
بہت سوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر ہونے والی تنقید کو چھپانے کے لئے کر رہے ہیں خاص طور پر 2018 میں سعودی قونصلیٹ میں حکومت مخالف صحافی جمال خشوگی کےبہیمانہ قتل کے بعد۔
لیکن تبدیلیاں اتنی زیادہ ہو رہی ہیں جس کی کبھی کوئی توقع نہیں کر سکتا تھا۔
آسٹریلیا میں 2017 میں اپنا فیشن برانڈ شروع کرنے والے 37 سالہ یوسف اکبر جو اس وقت جدہ میں اپنا کاروبار چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ جب میں بڑا ہو رہا تھا تو میں نے واقعتاً کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا کبھی ہوگا۔
“ پھر جب میں نے آسٹریلیا میں اپنا برانڈ شروع کیا تو میرا خیال تھا کہ میری پوری زندگی وہیں گزرے گی کیوں کہ میں ایک فیشن ڈیزائنر ہوں”۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ “جب میں نے سعودی عرب میں یہ تبدیلیاں شروع ہوتے ہوئے دیکھیں توپہلے دو برسوں میں تو میں نے تقریباً بالکل یقین نہیں کیا کہ یہ حقیقت تھی لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ تو حقیقت ہے” ۔
سعودی عرب کا رئیس طبقہ اپنی نجی تقریبات میں بین الاقوامی لگژری برانڈز پر بہت پیسہ خرچ کرتا ہے ۔
لیکن سعودی فیشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ عوامی لباس اور ایک ابھرتے ہوئے نجی سیکٹر میں دی جانے والی نئی آزادیاں 2021 اور 2025 کے درمیان ریٹیل فروخت کو 48 فیصد اضافے کے بعد 32 ارب ڈالر تک پہنچا دیں گی۔
کمیشن، مقامی ڈیزائنرز کے لیے 100 سعودی برانڈز کا ایک پروگرام تشکیل دے کر چاہتا ہے کہ اس رقم کا بہت بڑا حصہ ملک ہی میں رہے ۔
سعودی فیشن کمیشن کے سی ای او بوراک چکمک کہتے ہیں کہ “ملک میں فیشن کی صنعت کی بنیادیں مضبوط ہیں' ۔ انہوں نے پیرس میں اے ایف پی کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر ملک کا باقی دنیا سے زیادہ ربط ضبط نہیں تھا تو ہم فیشن کی صنعت کی شروعات آج کررہے ہیں ۔ میں نے اس ہفتے ایک برانڈ کی تقریب میں شرکت کی جو 70 کی دہائی سے چل رہا ہے ۔
سعودی لوگ اگرچہ انقلابی طبیعت کے حامل نہیں ہوتے لیکن ان کی ایک بڑی اکثریت کے لئے اس وقت یہ در حقیقت نئے اور بڑے مواقع ہیں خاص طور پر خواتین کے لیے۔
اور جو لوگ ان مواقع سے مستفید ہورہے ہیں ان کی خوشی تو واقعی جائز ہے ۔
یوسف اکبر کہتے ہیں کہ” کسی ایسی چیز کو ہوتے دیکھنا جس کے بارے میں ہم سب کا خیال تھا کہ یہ ناممکن ہے ، میرے کاروبار کے لئے تو بہت ہی حوصلہ افزا بات ہے” ۔
پیرس فیشن ویک میں شرکت کرنے والے سعودی ڈیزائنر اس وقت سعودی نوجوانوں میں مقبول ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ”چند ماہ قبل مجھے پہلی بار سعودی عرب میں ایک اجتماع سے خطاب کے لئے مدعو کیا گیا تھا جس کے بعد مجھ سے بہت سے لوگ ملنے آئے”۔
انہوں نےکہا کہ ”مجھے نئی نسل کی طرف سے بہت پذیرائی مل رہی ہے جس کی میں نے کبھی توقع نہیں کی تھی”۔
(اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سےلیا گیا ہے)