رسائی کے لنکس

امریکی عہدے دار کی نئی دہلی میں دلائی لاما سے ملاقات پر چین کیوں برہم ہے؟


چین نے امریکی عہدے دار کی تبت کے روحانی رہنما دلائی لاما سے نئی دہلی میں ملاقات پر سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی بیرونی طاقت کو تبت کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔

بیجنگ نے واشنگٹن سے کہا ہے کہ وہ تبت سے متعلق امور کے بہانے چین کے داخلی امور میں مداخلت بند کرے۔ بھارت میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کو چین مخالف علیحدگی پسند سرگرمیوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔

ان کے مطابق امریکہ کو ’زیزانگ‘ کو چین کا حصہ تسلیم کرنے کے اپنے عہد کی پاسداری کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ چین تبت کو زیزانگ کہتا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تبتن جلا وطن حکومت ایک علیحدگی پسند سیاسی گروپ ہے۔

چین نے تبت امور کی خصوصی رابطہ کار کے امریکی منصب کو جرم اور چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے سیاسی جوڑ توڑ قرار دیا۔ ترجمان نے کہا کہ چین نے ہمیشہ اس کی سختی سے مخالفت کی ہے اور اس نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ کی نائب وزیر خارجہ برائے جمہوریت، انسانی حقوق اور تبتن امور عذرا ضیا نے پیر کو نئی دہلی میں دلائی لاما سے ملاقات کی اور تبت کے موجودہ حالات اور خطے میں چین کی پالیسیوں پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔ ملاقات کے دوران تبتن جلاوطن انتظامیہ کے سربراہ، اطلاعات و بین الاقوامی تعلقات کے وزیر اور انٹرنیشنل کیمپین آف تبت کے صدر اور دیگر تبتن اہلکار موجود تھے۔

یاد رہے کہ امریکی وفد میں امریکہ کے نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ڈونلڈ لو، بھارت میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی اور یو ایس ایڈ کی ڈپٹی اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر انجلی کور بھی شامل ہیں۔

امریکی وفد ہفتے کو سات روزہ سرکاری دورے پر نئی دہلی پہنچا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عذرا ضیا بھارتی حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں سے بھی ملاقات اور تبادلۂ خیال کریں گی۔ وہ دو روزہ دورے پر بنگلہ دیش بھی جائیں گی۔

چینی سفارت خانے کے ترجمان کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دلائی لاما صرف ایک روحانی شخصیت ہی نہیں ہیں بلکہ سیاسی جلاوطن بھی ہیں جو کہ ایک طویل عرصے سے چین مخالف علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ ہمیشہ تبتن عوام کی مذہبی آزادی، ثقافتی تحفظ اور خودمختاری کی حمایت کرتا رہا ہے اور چین اس کے اس موقف کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہے۔

'چین دلائی لاما سے کسی رہنما کی ملاقات پسند نہیں کرتا'

سینئر تجزیہ کار رویند رکمار کا کہنا ہے کہ چین ون چائنا پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تائیوان کے ساتھ اس کا تنازع چل رہا ہے۔ اگر کوئی عالمی رہنما تائیوان کا دورہ کرتا ہے تو وہ اس کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی تبتن رہنما سے ملتا ہے تو وہ بھی چین کو پسند نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چین تبت پر زبردستی قبضہ کیے ہوئے ہے۔ اقوامِ متحدہ اور پوری دنیا نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ تبتن عوام بھارت میں پناہ گزیں کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ انہیں یہاں پناہ گزیں کا درجہ حاصل ہے اور اسی کے مطابق انہیں سہولتیں ملتی ہیں۔

ان کے بقول چین اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے دلائی لاما سے کسی رہنما کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا۔

رویندر کمار، عذرا ضیا کے دلائی لاما سے ملاقات کو دلائی لاما کے ایک بیان سے جوڑ کر دیکھتے ہیں جو اُنہوں نے ہفتے کو دیا ہے اور جس میں انہوں نے تبت کے معاملے میں اپنا موؐقف نرم کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ ہم آزادی نہیں چاہتے اور چین کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ دلائی لاما نے کہا ہے کہ وہ تبت اور چین کے مسائل پر چین کے ساتھ رسمی یا غیر رسمی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے اپنا 88 واں یوم پیدائش منانے کے بعد ہفتے کو ہماچل پردیش کے دھرم شالہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین ان سے مذاکرات چاہتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کے لیے تیار رہے ہیں۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اب چین کو بھی اس کا احساس ہو گیا ہے کہ تبتن عوام کے جذبات بہت قوی ہیں۔ لہٰذ ا وہ تبت کے مسائل پر بات کرنے کے لیے ہم سے رابطہ کرنا چاہتا ہے۔ ہم بھی تیار ہیں۔ ہم آزادی نہیں چاہتے۔ ہم نے برسوں قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم چین کا حصہ رہیں گے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ نہیں چاہتا کہ دلائی لاما اپنے دیرینہ مؤقف میں کوئی تبدیلی لائیں۔ وہ چاہتاہے کہ دلائی لاما تبت کے لیے اپنے خود مختاری والے مؤقف پر قائم رہیں۔ بقول ان کے دلائی لاما سے عذرا ضیا کی ملاقات اسی تناطر میں ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ کی خصوصی ایلچی نے گزشتہ سال مئی میں اپنے بھارت دورے کے موقع پر بھی دلائی لاما سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت بھی چین کی وزارتِ خارجہ نے اس ملاقات پر تنقید کی تھی اور اسے چین کے اندرونی امور میں مداخلت قرار دیا تھا۔


عالمی امور کے تجزیہ کار ابھیشیک جھا کا کہنا ہے کہ چین دلائی لاما سے امریکی عہدے داروں کی ملاقات کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہے۔ حالاں کہ دلائی لامہ سے ملاقات کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ایک روحانی شخصیت ہیں اور بلا لحاظ مذہب و ملک ان کو ہر جگہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

ان کے مطابق امریکہ تبت کی خودمختاری کی حمایت کرتا رہا ہے۔ جب کہ چین اسے اپنا لازمی حصہ بتاتا ہے۔ یہ تازہ ملاقات بھی سابقہ ملاقاتوں کا تسلسل ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے 2021 میں نئی دہلی کے دورے کے موقع پر دلائی لاما کے نمائندے سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت بھی چین نے اس پر اعتراض کیا تھا۔یہ قابل ذکر ہے کہ دلائی لاما نے 2016 میں واشنگٹن میں اس وقت کے صدر براک اوباما سے ملاقات کی تھی۔

یاد رہے کہ اکتوبر 1950 میں ہزاروں چینی فوجیوں نے تبت کی جانب مارچ کیا تھا اور اسے چین کا حصہ قرار دیا تھا۔ اگلے کچھ برس تک چین نے اس پر اپنی سخت گرفت رکھی جس کے خلاف مزاحمت ہوتی رہی۔

جب حالات زیادہ خراب ہوئے تو دلائی لاما 1959 میں اپنی جائے پیدائش چھوڑ کر بھارت آ گئے۔ اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے انہیں سیاسی پناہ دی تھی۔ اس کے بعد سے وہ ہماچل پردیش کے دھرم شالہ میں رہائش پذیر ہیں۔

اسی اثنا میں گزشتہ 20 دنوں کے درمیان امریکہ کے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ نے چین کا دورہ کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان دوروں کا مقصد امریکہ کی جانب سے چین کے ساتھ کم ہوتے اعتماد کو بحال کرنا اور چینی حکومت کے ساتھ رابطہ کاری کو قائم رکھنا ہے۔

رویندر کمار کہتے ہیں کہ ایک طرف امریکی عہدے دار چین کا دورہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیانات بھی دیے جا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ عالمی سفارت کاری کا حصہ ہے اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کے بقول دونوں ملک باہمی تعلقات کو خراب کرنا نہیں چاہتے لیکن حسب ضرورت بیانات دے کر یہ جتانا بھی چاہتے ہیں کہ ہم کمزور نہیں ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG