رسائی کے لنکس

یورپ اور ایشیا کے نصف  بچے شدید گرمی  کی لہروں کی زد میں ہیں : یونیسیف   


 گرمی سے بچنے کے لیے بچے ایک فوارے کے نیچے کھڑے ہو کر خود پر پانی ڈال رہے ہیں، فائل فوٹو
گرمی سے بچنے کے لیے بچے ایک فوارے کے نیچے کھڑے ہو کر خود پر پانی ڈال رہے ہیں، فائل فوٹو

اقوام متحدہ کے بچوں کے امور سے متعلق ادارے یونیسیف نے حال ہی میں جاری ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یورپ اور ایشیا میں 9 کروڑ سے زیادہ بچے غیر معمولی طور پر شدید گرم موسم کا سامنا کررہے ہیں، جس سے ان کے متعدد سنگین بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔

ادارے نے 50 ملکوں کے تازہ ترین دستیاب ڈیٹا کے تجزیے کے بعد نئی پالیسی کی ایک بریفنگ میں کہا کہ اس سے پہلے اوسطاً عالمی سطح پر ہر چار میں سے ایک بچہ گرمی کی شدید لہر کی زد میں ہوتا تھا، جب کہ تازہ اعدادو شمار کے مطابق یہ تعداد اب دگنی ہو چکی ہے ۔

یورپ اور ایشیا میں بچوں کو گرمی کی لہروں سے تحفظ سے وابستہ ادارے ، بیٹ دی ہیٹ کا کہنا ہے کہ بچے گرمی کی شدت سے خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں ہیٹ اسٹروک سمیت متعدد سنگین بیماریوں کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی کی لہروں کے دوران شیر خوار اور چھوٹے بچوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ سخت گرمی میں ان کے جسم کا درجہ حرارت بڑوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہو جاتا ہے اور تیزی سے بڑھتا ہے۔

گرمی سے پچنے کے لیے چند بچے ایک فوارے کے نیچے کھڑے ہو کر خود کو بھگو رہے ہیں۔ فائل فوٹو
گرمی سے پچنے کے لیے چند بچے ایک فوارے کے نیچے کھڑے ہو کر خود کو بھگو رہے ہیں۔ فائل فوٹو

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی کی لہریں بچوں کی توجہ مرکوز کرنے اور سیکھنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتی ہیں، جس سے ان کی تعلیم خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

بچے ہیٹ ویوز کے اثرات سے غیرمعمولی طور پر جلد اور زیادہ شدت سے متاثر ہوتے مگر زیادہ تر بالغ افراد گرمی کو مختلف طریقے سے محسوس کرتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے خطرناک حالات یا بچوں میں گرمی سے متعلق بیماری کی علامات کی نشاندہی کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جس سے بچوں کی صحت مزید خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

بلغراد میں ایک گرم دن میں بچے پانی سے کھیل رہے ہیں، فوٹو یونیسیف
بلغراد میں ایک گرم دن میں بچے پانی سے کھیل رہے ہیں، فوٹو یونیسیف

یونیسیف کی یورپ اور وسطی ایشیا کے امور کی ریجنل ڈائریکٹر ریجینا ڈی ڈومینسس ( Regina De Dominicis )نے کہا ہے کہ" ایشیا اور یورپ بھر کے ممالک موسمیاتی بحران کی گرمی کو محسوس کر رہے ہیں اور بچوں کی صحت اور بہبود سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے ۔"

انہوں نے کہا کہ ، “خطے بھر کے نصف بچوں کوگرمی کی لہروں میں اضافہ درپیش ہے اور خدشہ ہے کہ 2050 تک تمام بچے ایسی ہی صورت حال کی لپیٹ میں آجائیں گے ”

فائل فوٹو
فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ خطے کے بچوں کو جس طرح نمایاں طور پر تیزی سے گرمی کی شدت کا سامنا ہے اس کے پیش نظر حکومتوں کو اس مسئلے پر قابو پانے اور صوت حال سے مطابقت پیدا کرنے کے اقدامات پر ہنگامی طور سے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔”

حالیہ برسوں میں، یورپ اور وسطی ایشیا میں گرمی کی لہروں کی تعداد بڑھ گئی ہے ، جن میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس پورے خطے میں گرمی کی لہروں کی تعداد آنے والے برسوں میں مزید بڑھے گی ۔

ماہرین کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں 1.7 ڈگری سیلسیس کے اضافے کے تناظر میں یورپ اور وسطی ایشیا کے تمام بچوں کو 2050 تک شدید گرمی کی لہروں کا سامنا ہوگا ۔ اندازہ ہے کہ 81 فیصد بچے زیادہ گرمی اور 28 فیصد شدید گرمی کا سامنا کریں گے ۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

بچوں کو گرمی کی لہروں سے محفوظ رکھنے کے لئے یونیسیف کی تجاویز

* ہنگامی صورت حال سے نمٹنے سے متعلق منصوبوں ، نیشنل ڈیٹرمنڈ کنٹری بیوشنز ، (NDC)نیشنل ایڈیپٹیشن منصوبوں ،(NAP), اور ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن اینڈ ڈیزاسٹر رسک مینیجمنٹ کی پالیسیوں میں گرمی سے بچانے کے اقدامات کو شامل کیا جائے اور تمام منصوبوں میں بچوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے ۔

* بچوں کو گرمی سے متعلق بیماریوں سے بچاؤ، بر وقت کارروائی ،تشخیص اور علاج کی فراہمی کے لیے پرائمری ہیلتھ کئیر پر سرمایہ کاری کی جائے جس میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور اساتذہ کی تربیت شامل ہو۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

* آب وہوا کے ابتدائی انتباہی قومی نظاموں ، مقامی ماحولیاتی جائزوں اور ہنگامی حالات کی تیاری اور ان سے نمٹنے کے اقدامات پر سرمایہ کاری کی جائے ۔

*پانی ، نکاسئ آب اور حفظان صحت ، تعلیم ، غذائیت، سماجی تحفظ اور بچوں کے تحفظ کی سہولیات کو گرمی کی لہروں کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ضروری اقدامات کی مطابقت میں ڈھالا جائے ۔

* بچوں او ر ان کے خاندانوں کو گرمی کی لہروں سے بچانے کے لیے مناسب فنڈنگ کو یقینی بنایا جائے ۔

* بچوں اور نو عمر لوگوں کو آب و ہوا کی تبدیلی کی تعلیم اور گرین اسکلز کی تربیت دی جائے ۔

جدید سائنسی ریسرچ سے ظاہر ہو چکا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ، آب و ہوا کی تبدیلی کا نتیجہ ہے ۔ یونیسیف نے یورپ اور وسطی ایشیا کی تمام حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ 2025 تک عالمی درجہ حرارت کو ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سیلسئس تک محدود کرنے کے لیے کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کریں اور عالمی تپش میں اضافے سے نمٹنے کے لیے فنڈنگ کو دوگنا کر دیں ۔

فورم

XS
SM
MD
LG