اقوام متحدہ کے ماہرین نے پیر کے روز جاری ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ گروپ یا داعش اب بھی شام اور عراق میں موجود ہے اور اپنے سابقہ مضبوط ٹھکانوں میں 5000 سے 7000 کے درمیان ارکان کی کمان سنبھالے ہوئے ہے۔ دوسری طرف ماہرین کے مطابق داعش کے جنگجو آج بھی افغانستان میں سنگین خطرے کا باعث ہیں ۔
عسکریت پسند گروپ کے خلاف پابندیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین نے کہا ہے کہ 2023 کی پہلی ششماہی کے دوران داعش کی طرف سے لاحق خطرہ ’’ زیادہ تنازعات والے علاقوں میں زیادہ اور غیر تنازعاتی علاقوں میں کم رہا۔‘‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں پینل نے کہا کہ ’’مجموعی صورت حال خطرناک ہے۔‘‘ شام اور عراق میں سرگرمیوں میں کمی اور گروپ کی قیادت میں نمایاں نقصانات کے باوجوداس کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ برقرار ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ’’ اس گروپ نے اپنی حکمت عملی کو حالات کے مطابق تبدیل کیا ہے اور خود کو مقامی آبادیوں میں ضم کیا ہے۔ پھر اس نے ایسی لڑائیوں کے انتخاب میں احتیاط برتی ہے جن کے نتیجے میں محدود نقصانات کا امکان ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ گروپ شام کے شمال مشرق میں کیمپوں اور کمزور کمیونٹیز سے بھرتی کرتے ہوئےدوبارہ بحالی اور تعمیرنو کے عمل میں مصروف ہے ۔داعش کی ان کوششوں میں ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں ۔‘‘
اسلامک اسٹیٹ گروپ نے شام اور عراق کے ایک بڑے علاقے میں ایک خود ساختہ خلافت کا اعلان کیا تھا ۔ ان علاقوں پر اس نے 2014 میں قبضہ کر لیا تھا۔ عراق میں تین سال تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد 2017 میں داعش کی شکست کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اس تین سالہ لڑائی میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے اور شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے تھے لیکن اس کے سلیپر سیل دونوں ممالک میں اب بھی باقی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے باوجود داعش عراق اور شام میں 5000 سے 7000 ارکان کی کمان سنبھالے ہوئے ہے اور ’’جن میں سے بیشتر جنگجو ہیں۔‘‘ اگر چہ اس نے جانتے بوجھتے ہوئے اپنے حملوں میں کمی کی ہے تاکہ ’’بھرتی اور تنظیم نو کے لیے حالات پیدا کیے جا سکیں۔‘‘
ماہرین کے پینل نے کہا کہ شمال مشرقی شام میں تقریباً 11000 مشتبہ داعش جنگجو ؤں کو کرد وں کی زیرقیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کی تنصیبات میں بندرکھا گیا ہے۔ ان فورسز نے آئی ایس یا داعش کے خلاف لڑائی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ پینل کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں میں 3500 سے زیادہ عراقی اور تقریباً 2000 ایسے افراد شامل ہیں جن کا تعلق تقریباً 70 قومیتوں سے ہے ۔
شمال مشرقی شام میں الہول اور روج نامی دو بند کیمپ بھی موجود ہیں جہاں ماہرین کے مطابق تقریباً 55000 افراد مقیم ہیں اور جن کے آئی ایس سے مبینہ روابط یا خاندانی تعلقات ہیں ۔ یہ افراد’’سنگین‘‘ حالات اور ’’اہم انسانی مسائل ‘‘ کا شکار ہیں ۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ آبادی کا تقریباً دو تہائی حصہ بچوں پر مشتمل ہے جن میں 11800 عراقی، تقریباً 16000 شامی اور 60 سے زائد ممالک کے 6700 نوجوان شامل ہیں۔
پینل نے ایک ملک کا نام بتائے بغیر اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ داعش نے اپنے ’’کبس آف دی خلافت‘‘ پروگرام کو برقرار رکھا ہے اور پر ہجوم الہول کیمپ میں بچوں کو بھرتی کر رہا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ اس کے علاوہ 850 سے زیادہ لڑکے شمال مشرق میں حراستی اور بحالی کے مراکز میں ہیں۔ ان میں سے کچھ کی عمریں 10 سال تک ہیں۔
افغانستان کے حوالے سے پینل نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے اراکین کا اندازہ ہے کہ اسلامک اسٹیٹ گروپ سے ملک اور وسیع خطے کے لیے سنگین دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ اس نے کہا کہ آئی ایس یا داعش نے مبینہ طور پر اپنی عملی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور اب افغانستان میں اس کے 4000 سے 6000 جنگجو اور خاندان کے افراد موجود ہیں۔
ماہرین نے ایک مثبت نوٹ پر کہا کہ افریقہ میں موزمبیق کے کابو ڈیلگاڈو صوبے میں علاقائی افواج کی تعیناتی نے آئی ایس سے وابستہ تنظیم کی کارروائیوں میں خلل ڈالا۔ علاقائی ممالک کا اندازہ ہے کہ اب داعش کے پاس 180 سے 220 تک مرد جنگجو ہیں جن کو میدان جنگ کا تجربہ ہے۔ یہ تعداد پہلے 280 تھی۔
مشرقی علاقے میں ماہرین نے کہا کہ کئی ممالک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ داعش جیسے دہشت گرد گروپ تنازعات سے دوچار ملک سوڈان میں سیاسی تشدد اور عدم استحکام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
کچھ ممالک کا اندازہ ہے کہ افریقہ کے خطے ساحل میں داعش سے وابستہ تنظیم ’’تیزی سے خود مختار ہو گئی ہے اور اس نے دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ ساتھ خطے میں تشدد کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘ ان ممالک نے مالی میں کئی محاذوں پر آئی ایس کے بڑھتے ہوئے حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش کی کارروائی کسی حد تک برکینا فاسو اور نائیجرمیں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔)
فورم