ایران میں عدلیہ نے اس گلوکار کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے جن نے اپنے ایک حالیہ گانے میں خواتین کو سر سے حجاب اتارنے کی ترغیب دی ہے۔
عدلیہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ حکام نےاس گلوکار کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی ہے جنہوں نے اپنے نئے گانے میں خواتین پر زور دیا کہ وہ سر سے حجاب اتار دیں۔
مہدی یراحی کے خلاف یہ کارروائی ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے لگ بھگ ایک سال قبل ہوئی تھی۔
مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد ملک بھر میں کئی ماہ تک مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا۔
ایران کے 41 سالہ مہدی یراحی نے جمعے کو ایک فارسی گانا ’روسریتو‘ جاری کیا تھا جس کا مطلب ہے ’آپ کے سر کا اسکارف‘۔
اس گانے میں انہوں نے گزشتہ برس شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
مہدی یراحی کے کے گانے میں احتجاجی تحریک کا نعرہ ’عورت، زندگی، آزادی‘ بھی شامل ہے۔
انہوں نے خواتین سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اسکارف اتار دیں۔گانے کی ویڈیو میں کئی خواتین کے مختصر کلپ شامل ہیں جن کے بال کھلے ہوئے ہیں جب کہ وہ رقص بھی کر رہی ہیں۔
ایران عدلیہ کی ویب سائٹ میزان آن لائن کے مطابق مہدی یراحی کے خلاف ایک غیر قانونی گانا جاری کرنے پر قانونی کاروائی کا آغازکر دیا گیا ہے۔ ان کا گانا اسلامی معاشرے کی اخلاقیات اور رسم و رواج کے خلاف ہے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ گلوکار مہدی یراحی پر باضابطہ الزامات کیا ہیں۔ یراحی کو فوری طور پر حراست میں نہیں لیا گیا۔
ایران کی عدلیہ کی ویب سائٹ کے مطابق یراحی کے خلاف قانونی اقدامات میں ایک اور "متنازع گانا" بھی شامل ہو گا جو انہوں نے اکتوبر میں جاری کیا تھا۔
اس گانے کا ٹائٹل تھا کہ ’سورودِ زن‘ یا عورت کا ترانہ۔
مہدی یراحی کے اس گانے کو ایران میں گزشتہ برس ہونے والے احتجاج میں بہت شہرت ملی تھی۔
مہدی یراحی کون ہیں؟
فجر میلہ ایران میں سرکاری سطح پر منقعد کیا جانے والے سب سے بڑا میوزیکل ایونٹ ہے۔ سال 2018 میں اسی میوزیکل ایونٹ میں مہدی یراحی کو بہترین پاپ گلوکار کے انعام سے نوازا گیا تھا
مہدی یراحی نے اپنے کنسرٹس کے دوران کئی مواقع پر حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ان کا آبائی تعلق صوبہ خوزستان سے ہے جہاں زیادہ تر عرب اقلیت بستی ہے۔ جب کہ اس صوبے کے بیشتر علاقوں میں پسماندگی ہے جس پر مہدی یراحی آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
ان کا گیت "عورت کا ترانہ" احتجاجی تحریک کا ایک اہم جز ورہا ہے۔ ملک کی جامعات میں ان کے گانے کو بہت زیادہ مقبولیت ملی ۔
ایران میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایرانی خواتین کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہروں میں یہ گانا نمایاں رہا۔
ایران میں کئی ماہ تک جاری احتجاج اور مظاہروں کو حکام نے بیرونی ممالک کی ایما پر ہونے والے فسادات قرار دیاتھا۔ اس دوران بہت بڑی تعداد میں خواتین سمیت انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ مظاہروں میں فورسز سے تصادم میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت عام شہریوں کی اموات بھی رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔
مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج میں خواتین نے حکام کے نافذ کردہ ڈریس کوڈ کو جبری حجاب قرار دیا جب کہ مظاہروں کے دوران حکومت کے نافذکردہ سخت ڈریس کوڈ کی بار بار خلاف ورزی کی گئی۔
اس رپورٹ میں معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔