امریکہ میں 2024 صدارتی انتخابات کا سال ہے اور اس کی گہما گہمی کا تقریباً آغاز ہو چکا ہے۔ زیادہ سرگرمی ریپبلکن پارٹی میں نظر آتی ہے جس کے متعددامیدوار اپنی پارٹی کی صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے کو شاں ہیں جن میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہیں اور رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے میں ان کی مقبولیت 80% بتائی گئی ہے جو باقی امیدواروں سے کہیں زیادہ ہے۔جبکہ ڈیمو کریٹک پارٹی میں موجودہ صدر بائیڈن دوسری مدتِ صدارت کے لیے انتخاب لڑیں گے۔
امریکہ میں انتخابی سال سے ایک سال پہلے لیبر ڈے کی تعطیل جو ستمبر کے پہلے پیر کو ہوتی ہے، سیاسی سرگرمیوں میں تیزی کا پیغام لاتی ہے اور اس سال بھی یہی ہوا ہے۔ اس وقت ریپبلکن پارٹی کے کاکسز کی بات ہو رہی ہے جن کا انعقاد 15 جنوری 2024 کو آئیو وا میں ہوگا۔
یہاں آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ کاکس سے مراد کیا ہے۔ کاکس دراصل پارٹی کے زیر اہتمام ممبران کا اجتماع ہوتا ہے جو اپنی صدارتی ترجیحات پر تبادلہ خیال کرنے، پارٹی کی مقامی قیادت کا انتخاب کرنے اور پارٹی کے پلیٹ فارم سے اٹھائے جانے والے مسائل پر بحث کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن ایسے میں جب 2024 کی صدارتی مہم اب زیادہ توجہ کا مرکز ہے تو معمول کے رویوں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے ۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن امیدواروں میں غالب حیثیت رکھتے ہیں ۔وہ گورنرز، سفارت کاروں اور کاروباری افراد میں مقبولیت میں اپنے ایسے حریفوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں جو عام طور پر متاثر کن ہوتے ہیں ۔ سابق صدر کی قوی حیثیت ان متعدد مجرمانہ الزامات کے باوجود نمایاں طور پر سامنے آئی ہے جو ملک کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی سنجیدہ بحث سے زیادہ توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں ۔
ان کے حریف ری پبلکنز کی جانب سے انتخابی دوڑ پر خطیر اخراجات کے باوجود ٹرمپ کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکا۔ یہ صورتحال ری پبلکنز کے ناقدین میں تشویش پیدا کر رہی ہے جنہیں خدشہ ہے کہ پرائمری شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گی۔
مسائل کے باوجود سابق صدر ٹرمپ نے نامزدگی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور دوسری جانب صدر جو بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے نامزدگی کے حصول میں کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔ اسی سالہ موجودہ صدر کو ڈیموکریٹک نامزدگی کے لیے صرف علامتی مخالفت کا سامنا ہے اگر چہ ان کی اپنی پارٹی کے اندر سے متعدد افراد کو ان کی عمر اور کارکردگی کے بارے میں خدشات ہیں۔
اب رائے دہندگان چاہے اسے پسند کریں یا نہ کریں بہت ممکن ہے کہ ٹرمپ۔بائیڈن دوبارہ مد مقابل ہوں اور یہ صورتحال ایک غیر یقینی انتخابی عمل کی عکاسی کرتی ہے جس کے نتیجے میں ملک کی سیاسی تقسیم مزید شدید ہو تی نظر آتی ہے۔ سابق صدر ٹرمپ اپنی پارٹی کے صدارتی مباحثوں میں شریک نہیں ہو رہے اور ان کی عدالت میں پیشی بعض اوقات ان کی مہم سے زیادہ توجہ لے رہی ہے۔
صدربائیڈن نے اپنی مہم کا بمشکل آغاز ہی کیا ہے کیونکہ انہیں اپنی عمر اور اپنے بیٹے کے قانونی چیلنجوں کے بارے میں سوالات کا سامنا ہے۔ہنٹر بائیڈن کو ان کے ٹیکس کے معاملات میں قانونی کارروائی کا سامنا ہے جس پر وائٹ ہاؤس کی واضح ہدایات کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
جہاں تک رپبلیکنز کا سوال ہے، ان میں سے کچھ عطیہ دہندگان اور پارٹی کے رہنماؤں میں خدشات پیدا ہو رہے ہیں جن کا خیال تھا کہ 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پر حملے کے الزام میں قانونی کارروائی اورسابق صدر کے سنگین قانونی چیلنجوں کے بعد قدامت پسند ووٹر انہیں چھوڑ دیں گے۔
ایک ممتاز ریپبلکن ڈونر بوبی کِلبرگ نیو جرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی کی حمایت کر رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’’ٹرمپ۔بائیڈن کا دوبارہ مقابلہ ملک کے لیے تباہی کا باعث ہوگا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت افسردہ ہیں اور یہ صورت ڈرانے والی ہے کہ ان کی پارٹی کے زیادہ ووٹرز سابق صدر کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
2024انتخابی منظر نامے میں تبدیلی کا وقت
آئیووا کاکسز میں پہلی ووٹنگ میں ابھی چار ماہ باقی ہیں جبکہ عام انتخابات میں ایک سال سے زیادہ کا وقت ہے۔ اور حالیہ تاریخ میں ایسے امیدواروں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے روایتی حکمت عملی کو غلط ثابت کیا ہے ۔ ٹرمپ اور بائیڈن دونوں ان میں شامل ہیں۔
نمایاں تبدیلی کا امکان
اسقاط حمل کا معاملہ انتخابات کا ایک اہم موضوع ہے یہاں تک کہ ری پبلکنز کے مضبوط گڑھ کینساس، کینٹکی اور اوہائیو میں بھی یہ توجہ کا مرکز ہے کیونکہ ووٹرز اس پروسیجر تک رسائی کو محدود کرنے کی ریپبلکن کوششوں کو مسترد کرتے ہیں۔اس حوالے سے ایک بڑا ردعمل ممکن ہے کیونکہ عدالتیں اسقاط حمل کے لیے عام طور پر استعمال ہونے والی گولیوں تک رسائی کا جائزہ لیتی ہیں۔
سابق صدر ٹرمپ کو واشنگٹن، نیویارک، جنوبی فلوریڈا اور اٹلانٹا میں مجرمانہ کارروائیوں میں اکانوے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ ان میں خفیہ معلومات سے لے کر 2020 کے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوششوں اور پورن اداکارہ کو رقم کی خفیہ ادائیگی تک سب کچھ شامل ہے۔
ممکن ہے کہ سابق صدر آئندہ نومبر میں عام انتخابات کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی سزا یافتہ ہو جائیں۔ پھر بھی پارٹی کے رہنماؤں نے ان کی حمایت کرنے کا عزم کیا ہے چاہے وہ سزا یافتہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ آئین کا کوئی بھی حصہ مجرموں کو صدارت کے حصول سے نہیں روکتا۔
اس وقت ڈیموکریٹک حکام ’’نو لیبلز ‘‘کے بینر تلےایک تیسرے فریق کی شرکت کے امکان کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہیں ۔ یہ ایک سینٹرسٹ گروپ ہے جس کے پاس 70 ملین ڈالر کا بجٹ ہے اور وہ کم از کم 20 ریاستوں میں صدارتی بیلٹ میں شامل ہونے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
گروپ کے رہنما زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ اور بائیڈن اپنی اپنی پرائمریز میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں اور جس کا امکان بڑھتا دکھائی دیتا ہے تو وہ آئندہ موسم بہار میں اپنے ایک امیدوار کو صرف ایک "انشورنس پالیسی" کے طور پر نامزد کریں گے۔
ڈیمو کریٹک لیڈر قائل نہیں
کئی موجودہ اور سابق منتخب عہدیدار’’ نو لیبلز‘‘ تنظیم کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ ان میں ڈیموکریٹک سینیٹر جو منشن شامل ہیں جن کا تعلق ویسٹ ورجینیا سے ہے۔ ان کے علاوہ یوٹاہ کے سابق گورنر جان ہنٹس مین اور میری لینڈ کے سابق گورنر لیری ہوگن شامل ہیں۔
لوئی زیانا کے سینٹر بل کیسڈی ایک ایسے رپبلکن ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ ’’ نو لیبلز‘‘ کے مشن کی حمایت کرتے ہیں اور ایک حالیہ انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے خود ’’نو لیبلز ‘‘ کے صدارتی امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ لینے سے انکار نہیں کیا۔
کیسڈی نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ’’ نو لیبلز ‘‘ اپنا کوئی امیدوار سامنے لائے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں جماعتیں درپیش چیلنجوں کا ذمہ داری کے ساتھ جواب دیں۔بل کیسیڈی ایک طبی ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے بھی بائیڈن کی جسمانی اور ذہنی صحت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس۔این او آر سی سنٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کے ایک نئے سروے میں لوگوں نے ٹرمپ اور بائیڈن دونوں کے لیے ملے جلے جذبات کا اظہا کیا ہے۔ جواب دینے والوں نے بائیڈن کے لیے’’معمر‘‘ اور ’’کنفیوزڈ‘‘ جبکہ ٹرمپ کے لیے ’’کرپٹ‘‘ اور ’’بد دیانت ‘‘ کی اصطلاحات استعمال کیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس۔این او آر سی سنٹر فار پبلک افیئر ریسرچ کے 25 اگست کے ایک نئے سروے کے مطابق جب صدر جو بائیڈن کی بات آتی ہے تو ڈیموکریٹس اور رپبلکن ایک چیز پر متفق ہیں اور دونوں جماعتوں میں اکثریت کا خیال ہے کہ صدارتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے ان کی عمر زیادہ ہے ۔لیکن اس کے باوجود دونوں جماعتوں کے رہنما اس طرح کے مسائل کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ینگ ڈیموکریٹس آف امریکہ کے صدر کوئنٹن واتھم-اوکاما نے اعتراف کیا کہ نوجوان ووٹرز ضروری نہیں کہ ٹرمپ-بائیڈن کے دوبارہ میچ کے بارے میں پرجوش ہوں۔
’’ ہاں، لوگ سیاست دانوں کی نوجوان نسل چاہتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ جو بائیڈن کے بارے میں بات کی ہے اور انہوں نے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا ہےکہ وہ ہماری سیاسی زندگی میں ایک عبوری شخصیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’جتنا ہم لوگ دیکھ رہے ہیں، کسی بھی وجہ سے، اس پر پرجوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ عمل جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔"
کانگریس میں اور اہم ریاستوں میں ڈیموکریٹک عہدیدار بائیڈن کے دوبارہ انتخاب کے لیے کھلم کھلا بات کر رہے ہیں ۔
2020 میں ڈیموکریٹک پرائمری میں بائیڈن کے مضبوط ترین چیلنجر ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے سینٹر برنی سینڈرز نے بائیڈن کی دوبارہ انتخاب کے اعلان کی توثیق کی ہے۔ بائیڈن کے انتخاب میں دوبارہ حصہ لینے کا اعلان اس سال موسم بہار میں کر دیا گیا تھا۔ بائیڈن نے دوسرے حریفوں کی فہرست بنائی ہے اور اس گروپ میں ایوان کے نمائندہ کیلی فوررنیا سے ڈیمو کریٹ رو کھنہ، ڈی۔ الی نوائے کے گورنر جے بی پرٹزکر اور کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم شامل ہیں۔
ریپبلکنز نیوسم کو بائیڈن کے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہوئے خوش ہیں۔ تاہم کیلیفورنیا کے گورنر نیوسم اس قیاس آرائی کو بار بار مسترد کر چکے ہیں۔ری پبلکنز امیدواروں میں سے فلوریڈا کے گورنر ڈی سینٹس کو ایک مضبوط حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاہم انہیں بھی توقعات پر پورا اترنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ جبکہ سابق صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم نے پہلے ہی بائیڈن کے خلاف عام انتخابات پر توجہ مرکوز کر لی ہے ۔
ٹرمپ کے پولیٹیکل ڈائریکٹر برائن جیک نے کہا کہ ’’ سابق صدر کو گزشتہ آٹھ برسوں سے پارٹی کی قیادت کرنے سے فائدہ ہوا ہے۔‘‘
سابق صدر ٹرمپ کے لیے ماحول کو سازگار دیکھتے ہوئے ان کے کچھ طاقتور اتحادیوں نے دوسرے ریپبلکن صدارتی امیدواروں سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ میامی کے میئر فرانسس سواریز نے ابتدائی بحث کو کوالیفائی کرنے میں ناکامی کےبعد وائٹ ہاؤس کے لیے اپنی مختصر کوشش کو ختم کر دیا ہے۔ تاہم، ابھی بھی کم از کم آٹھ ہائی پروفائل مخالفین باقی ہیں۔
’’یہ بات تو واضح ہے کہ سابق صدر ٹرمپ ہی ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ ‘‘ یہ کہنا ہے رپبلکن نمائندہ ا یلیس سٹیفانیک کا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ ہماری زندگی کا سب سے اہم انتخاب ہے اور وہ ریپبلکنز پر زور دیتی رہیں گی کہ وہ اپنے تمام وسائل سابق صدر کے لیے بروئے کار لائیں ۔تاہم کچھ ریاستوں میں بااثر ریپبلکن ابھی تک ٹرمپ کی نامزدگی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
نیو ہیمپشائر کے گورنر کرس سنونو آئیووا کے بعد دوسرے رپبلکن پرائمری مقابلے کی میزبانی کر رہے ہیں ۔ وہ ٹرمپ کے حریفوں کی حمایت میں کوشاں ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ ٹرمپ میں عام انتخابات جیتنے کے حوالے سے کئی خامیاں ہیں۔
آئیووا کے سابق گورنر ٹیری برانسٹاڈ نے چین میں ٹرمپ کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور وہ بھی عام انتخابات میں سابق صدر کو درپیش قانونی چیلنجوں کے تناظر میں ان کی جیت کے امکانات کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں ۔
(اس رپورٹ کی تفصیل اےپی سے لی گئی ہے)
فورم