رسائی کے لنکس

طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے خواتین کے حقوق کی پاسداری اہم ہے: اقوام متحدہ


.کابل میں خوراک کی امداد کی منتظر افغان خواتین،فوٹو اے پی ،28 مئی 2023
.کابل میں خوراک کی امداد کی منتظر افغان خواتین،فوٹو اے پی ،28 مئی 2023

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن یا یوناما کی ایک جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکڑوں افغان خواتین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کو اس وقت تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہیئے جب تک وہ خواتین کے لیے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بحال نہیں کر دیتے۔

اقوام متحدہ کے اس سروے میں 592افغان خواتین نے حصہ لیا اور ان میں سے تقریبا 46 فیصد نے بتایا کہ عالمی ادارے کو ’’کسی بھی صورت‘‘ طالبان کو افغان حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرنا چاہیئے ۔سروے میں شامل جواب دینے والوں میں سے نصف کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی کسی بھی صورت کو خواتین کے حقوق کے ساتھ منسلک کر دینا چاہیئے ۔ان حقوق میں عورتوں کے کام کرنے اور تعلیم کے حق بھی شامل ہیں۔

طالبان نے2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد لڑکیوں کے لیے سیکنڈری سکول اور یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی ۔اس پابندی کے نتیجے میں ان گنت لڑکیاں اور نوجوان خواتین تعلیم سے محروم ہو گئیں ۔ طالبان نے خواتین کے کام کرنے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔

طالبان کی اسلامی حکومت نے خواتین پر متعدد پابندیاں لگا رکھی ہیں جن میں کھیلوں اور تفریح کے مقامات تک ان کی رسائی ختم کر دی گئی ہے۔ ان پابندیوں کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ’’صنفی امتیاز‘‘روا رکھا جاتا ہے۔

کابل میں یوناما کا دفتر
کابل میں یوناما کا دفتر

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن یا یوناما کی اس جائزہ رپورٹ کی شرکا نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے نتیجے میں لڑکیوں اور خواتین کے لیے حکمرانوں کی سخت گیر پالیسیوں میں اور شدت پیدا ہو سکتی ہے۔

طالبان کی جانب سے عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی اپیلوں کے جواب میں تبدیلی پر زور دیا گیا ہے۔ بیشتر ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان حکومت خواتین سے تعصب روا رکھنے کی اپنی پالیسی کو ترک کر دے، ایک جامع حکومت تشکیل کرے اور انسانی حقوق کا احترام کرے۔

تاہم طالبان حکام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کی ’’اسلامی امارات‘‘ جامع ہے اور انسانی حقوق کا احترام بھی کرتی ہے بشرطیکہ یہ شرعی قوانین کے تابع ہوں ۔افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ حالات کو معمول پر لانا ان کے خیال میں ممکن نہیں ہےاور وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری اس نکتے پر پوری طرح سے متفق ہے کہ جب تک طالبان کی جانب سے افغان عوام کے لیے رویے میں نمایاں تبدیلی نہیں آتی ، اس وقت تک ان کو تسلیم کرنے کا معاملہ اٹھایا نہیں جا سکتا۔

ادھرنوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی والدہ طور پکائی نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو پیر کے روز ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’ جب تک افغان لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حق اور خواتین پر کام کی پابندی ختم نہیں کی جاتی اس وقت تک ہم اپنی جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔ ‘‘

بگڑتی صورتحال کی علامتیں

اقوام متحدہ کے اس سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں خواتین کی صحت ، آمدن اور سماجی اثر و رسوخ کو نمایاں نقصان پہنچا ہے ۔یوناما کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’ جن خواتین سے اکثر مشاورت ہوتی ہے ان کا کہنا ہے کہ ان کی زندگیاں ایسے قیدیوں کی مانند ہیں جو تاریکی میں رہتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں کسی بھی امید کے بغیر اپنے گھروں تک محدود ہیں ۔‘‘

افغانستان میں بیوٹی سیلونز پر پابندی
افغانستان میں بیوٹی سیلونز پر پابندی

جن خواتین کو سروے میں شامل کیا گیا ہے ان میں سے 80 فیصد کا کہنا ہے کہ آمدن حاصل کرنے والی سرگرمیوں کے لیے ان کی صلاحیت میں کمی آئی ہے۔ جولائی میں طالبان نے خواتین کے بیوٹی سیلونز پر پابندی لگا دی جس کے نتیجے میں تقریبا چار ہزار خواتین آمدن سے محروم ہو گئیں ۔

آمدنی ختم ہونے کے نتیجے میں خواتین کے سماجی اور خاندانی معاملات پر اثرات مرتب ہوئے ہیں اور گھروں میں کیے جانے والے فیصلوں میں ان کا اثر کم ہو گیا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق انہتر فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ ان میں پریشانی ، تنہائی اور مایوسی پیدا ہو گئی ہے۔

افغان خواتین کے یہ مسائل ملک میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران اور فلاحی فنڈنگ میں کمی کی وجہ سے اور بھی گھمبیر ہو گئے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے افغانستان میں فلاحی سرگرمیوں کے لئے 3.227 بلین ڈالر کی اپیل کی تھی اور اب ستمبر میں اس کا محض 28 فیصد اکٹھا ہو سکا ہے۔ فنڈنگ کی اس کمی کے نتیجے میں فلاحی اداروں کو خوراک کی امداد اور صحت کے شعبے میں دی جانے والی امداد میں کمی کرنا پڑی ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افغان افراد متاثر ہو رہے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔

اکمل داوی ۔ وائس آف امریکہ

فورم

XS
SM
MD
LG