یہ ستمبر کا آغاز تھا جب بھارت کی میزبانی میں دنیا کی بیس بڑی معیشتوں یعنی گروپ آف 20 کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا جو وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے خوش کن تھا ۔ افریقی یونین کو مستقل رکن بنانے کا ان کا وعدہ ایک حقیقت بن گیا اور ان کی قیادت میں اختلاف رائےکا شکار ہونے کے باوجود گروپ نے حتمی بیان پر دستخط بھی کر دیے۔
ا س صورتحال کو مودی کی خارجہ پالیسی کے لیے فتح کے طور پر دیکھا گیا جس کے نتیجے میں بھارت کو ایک عظیم ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر دیکھا گیا۔
اسی تناظر میں توقع کی جارہی تھی کہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھارت کی پوزیشن کو مزید مستحکم کر سکیں گے۔ لیکن حالات اچانک بدل گئے اوربھارت کی شرکت سفارتی تنازع پرمحاذ آرائی کے ساتھ ہوئی ۔
حالات کی یہ تبدیلی کینیڈین رہنما جسٹن ٹروڈو کے چونکا دینے والے دعویٰ کا نتیجہ تھی جس میں ٹروڈو نے کہا کہ جون میں وینکوور کےایک نواحی علاقے میں ایک سکھ کینیڈین شہری کے قتل میں بھارت ملوث ہو سکتا ہے۔
ٹروڈو نے کہا کہ نئی دہلی کے قتل سے تعلق کے ’’با وثوق الزامات ‘‘ سامنے آئے ہیں جنہیں بھارت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔
اس دعویٰ کے بعد صورتحال بگڑتی چلی گئی ۔ بھارت اور کینیڈا نے ایک دوسرے کے ایک ایک سفارت کار کو بے دخل کر دیا۔ بھارت نے کینیڈین افراد کے لیے ویزےجاری کرنے کا عمل معطل کر دیا اور اوٹوا نے بھی کہا کہ وہ حفاظتی خدشات کے باعث قونصل خانے کے عملے کو کم کر سکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب ان دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات تھے جو برسوں بعد اپنی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔
ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا بحران ہے جس کو بہت احتیاط سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
کشیدگی بڑھ رہی تھی
جی ٹونٹی سربراہی اجلاس کا آخری دن تھا جب ٹروڈو مودی کے ساتھ تصویر بنواتے ہوئے مسکراتے رہے۔ اس وقت عالمی رہنما مہاتما گاندھی کی یادگار پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے ۔ لیکن ٹروڈو کی اس مسکراہٹ کے پیچھے کشیدگی موجود تھی۔
ٹروڈو نےبھارتی صدر کی طرف سے دیے گئے ایک سرکاری عشائیے میں شرکت نہیں کی جس کی خبر مقامی میڈیا نے دی اور یہ بھی بتایا کہ دونوں لیڈروں کے درمیان دو طرفہ ملاقات بھی نہیں ہو پائی ۔
حالات اس وقت اور بھی دگرگوں ہوئے جب نئی دہلی میں ان کی پرواز چھتیس گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی ۔ ٹروڈو نے کینیڈا واپسی پر بتایا کہ انہوں نے جی ٹونٹی اجلاس کے دوران مودی کے ساتھ قتل کے اس معاملے کو اٹھایا تھا۔
نئی دہلی میں قائم کونسل فار سٹریٹیجک اینڈ ڈیفنس ریسرچ کے بانی ہیپیمون جیکب نے کہا کہ جب بھارت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوا تو کینیڈا کے ان الزامات نے ’’بھارت کی جی ٹونٹی سربراہی اجلاس کی کامیابیوں کو دھندلا دیا تھا۔‘‘
بھارت کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کی کوشش
بھارت طویل عرصے سے کوشش کر رہا ہے کہ اقوام متحدہ میں اس کی حیثیت کو زیادہ تسلیم کیا جائے ۔ کئی دہائیوں سےاس کی نظر سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول پر لگی ہے۔ لیکن اس نے عالمی فورم پر بھی تنقید کی ہے جس کی جزوی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ زیادہ نمائندگی چاہتا ہے جو اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مطابق ہو۔
ہیپیمون جیکب نے کہا کہ ’’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے نظام کا مرکز ہے جو چین سمیت دوسری عالمی جنگ کے فاتحین کی ایک خاندانی تصویر کی مانند ہے۔‘‘
جیکب کا مزید کہنا یہ ہے کہ بھارت کا خیال ہے کہ’’یہ عالمی ادارہ آج کی آبادی، اقتصادی صورت حال اور جغرافیائی سیاسی حقیقتوں کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔‘‘ اس خصوصی گروپ میں چین کے علاوہ فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔
بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے اپریل میں کہا تھا کہ بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ اسے زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ’’ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھارت کو مستقل رکنیت دینے پر مجبور ہو جائے گی۔‘‘
امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ بھارت کے سرد جنگ دور کے اتحادی ملک روس نے گزشتہ برسوں میں اس کی مستقل رکنیت کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
لیکن اقوام متحدہ کی بیوروکریسی نے کونسل میں توسیع کو روک دیا ہے اور اگر صورتحال تبدیل ہو بھی جاتی ہے تو بھارت کا پڑوسی اور علاقائی حریف چین ممکنہ طور پر اس درخواست کو روک دے گا۔
بھارت کی کثیرجہتی خارجہ پالیسی کی وضاحت
بھارت کا سفارتی اثر و رسوخ یوکرین جنگ کے لیے روس کی مذمت کرنے میں ہچکچاہٹ کے نتیجے میں کسی قدر بڑھ گیا ہے۔ یہ ایک ایسا موقف ہے جو متعدد ترقی پذیر ممالک نے اپنا یا ہے اور وہ غیر جانبدار بھی رہے ہیں۔
مغرب نے مودی کے ساتھ تعلقات کو بڑھایا ہے کیونکہ وہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو اہم سمجھتا ہے ۔
کینیڈا کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے پہلا ردِ عمل محتاط رہا ۔ ان اتحادیوں میں امریکہ بھی شامل ہے۔ لیکن جیسے جیسے یہ معاملہ اہمیت حاصل کر رہا ہے بھارتی حکام کے لیے ممکنہ طور پر ایک پریشان کن سوال یہ ہے کہ آیا حالیہ صورتحال مغرب کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو خطرے میں تو نہیں ڈال دے گی؟
وائٹ ہاؤس نے ابتدائی طور پر نسبتاً خاموش ردعمل کے بعد اپنے خدشات کا سختی سے اظہار کیا ہے۔ امریکہ میں سلامتی امور کے لیے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ ’’ چاہے ملک کوئی بھی ہو اس طرح کے اقدامات کے لیے کوئی خاص رعایت نہیں ملتی ۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعے کے روز کہا کہ امریکہ کو ان الزامات پر گہری تشویش ہے اور ’’یہ بات اہم ہے کہ بھارت ان تحقیقات پر کینیڈا کے ساتھ مل کر کام کرے۔‘‘
اگرچہ اس قتل کے حوالے سے کوئی عوامی ثبوت نہیں ہے تاہم ایک کینیڈین اہلکار نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ایک علیحدگی پسند سکھ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام کینیڈا میں بھارت سفارت کاروں کی نگرانی پر مبنی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم اتحادی کی طرف سے فراہم کردہ انٹیلی جنس بھی شامل ہے۔
کینیڈا میں امریکی سفیر نے جمعے کو اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس شیئرنگ ’فائیو آئیز‘ نامی اتحاد کے تمام ارکان کی طرف سے شیئر کی گئی معلومات سے پتہ چلا کہ بھارت کا اس قتل سے تعلق ہے۔
اقوام متحدہ میں ٹروڈونے نیوز کانفرنس اور مختلف میٹنگز کیں ۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ کسی قسم کے مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ کینیڈا کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کے لیے کھڑا ہواور اپنے شہریوں کی حفاظت کرے۔
جہاں تک نئی دہلی کا سوال ہے، ممکن ہے اقوام متحدہ کا اجلاس کوئی موقع دے سکے۔ تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے کہا کہ بھارتی اور کینیڈین سفارت کار واشنگٹن کی ممکنہ مدد سے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر صورتحال سے پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے دوسرے اہم شراکت داروں کے ساتھ براہ راست ملاقاتیں بھی کر سکتے ہیں۔ اپنی آمد کے بعد انہوں نے آسٹریلیا، جاپان اور برطانیہ کے وزراء کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
تجزیہ کار کوگل مین کہتے ہیں کہ ’’ یہ تو واضح ہے کہ ہم یہ تو نہیں دیکھیں گے کہ غیر ملکی رہنما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جے شنکر سے گریز کر رہے ہوں یا الگ تھلگ ہوں ۔‘‘
کوگل مین کا کہنا ہے کہ بھارت نہیں چاہے گا کہ یہ معاملہ توجہ کا مرکز بنے کیونکہ اس کے نتیجے میں بھارت کی ان کامیابیوں سے نظر ہٹ جائے گی جنہیں وہ اس عالمی ادارے میں نمایاں کرنے کا خواہاں ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں ۔)
فورم