ایک ایسے ملک میں ، جہاں کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے ، اسرائیل کے ساتھ یک جہتی کا اظہار ایک عام تعجب کی بات ہے ۔
آذر بائیجان کے ایک رکن پارلیمنٹ راسم مصابیلی نے اس حملے کے روز جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ، وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ہم ایسے حملوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں جن کے نتیجے میں عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک اور زخمی ہوئی ہے۔ مشکل کی ان گھڑیوں میں ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ماسکو سے 1991 میں اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کے بعد سے آذر بائیجان کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ آہستہ آہستہ مضبوط ہوئے ہیں جو گزشتہ تین عشروں میں ایک اسٹریٹیجک اتحاد کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔
حالیہ مہینوں میں اسرائیل صدر آئزک ہرزوگ، وزیر خارجہ ایلی کوہن اور وزیر دفاع یوف گیلنٹ نے آذر بائیجان کے دورے کیے ہیں جنہیں بہت سے مبصرین سیکیورٹی اور اقتصادی مفادات پر قائم ایک مسلسل شراکت داری کے طور پر دیکھتے ہیں ۔
آذر بائیجان کے لیے اربوں ڈالر کی لاگت کے جدید ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد کی فروخت نے اسرائیل کو آذر بائیجان کو ہتھیاروں کا ایک اہم سپلائر بنا دیا ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے مختلف قسم کے ڈرونز اور ایک فضائی دفاعی نظام کی فوجی معاونت نے آذربائیجان کی فوج کو 2020 اور اس کے بعد نوگوروکاراباخ میں آرمینیا کی فورسز پر فوجی کامیابی دلوانے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔
حماس عسکریت پسندوں کے اسرائیل پر اچانک حملے کے ایک روز بعد ،اتوارکو مرنے والوں کے لیے ہمدردی کے اظہار کے طور پر آذر بائیجان میں اسرائیلی سفارت خانے کے گیٹ کے باہر کے احاطے کو پھولوں اور ٹیڈی بئیرز سے سجایا گیا تھا۔
اسرائیلی سفیر نے ایکس پر جو اس سے قبل ٹوئٹر کے طور پر معروف تھا، تاریخ کے اس تاریک وقت اپنے تشکر کا اظہار کیا۔
جارج ڈیک نے لکھا، دوستی کے اس دلی اظہار پر آذر بائیجان کے لوگوں کا شکریہ۔
آذر بائیجان کی وزارت خارجہ نے ایک سرکاری بیان میں ، جو حملوں کے کئی گھنٹوں بعد سامنے آیا کہا کہ ، ہم اسرائیل ۔ فلسطین تنازعے کے زون میں شہریوں کے خلاف تشدد کی مذمت کرتے ہیں ۔ ہم اسرائیل اور غزہ کی پٹی ، دونوں جگہ بہت سے شہریوں کی زندگیوں کے نقصان پر تعزیت کا اظہار کرتے ہیں ۔ ہم صورت حال کی کشیدگی میں فوری طور پر کمی چاہتے ہیں ۔
تاہم آذر بائیجانی جذبات کو اسرائیل نواز جذبات کے طور پر بیان کرنا بھی درست نہیں ہوگا ۔ اس کے مکینوں کی ایک بڑی تعداد مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی حالت زار پر اسی تواتر سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہے جتنے تواتر سے وہ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتی ہے ۔
انسانی حقوق کے سر گرم کارکن اسرائیل کی سیکیورٹی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ بعض اوقات جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کو نظر انداز کرتی ہے ۔
ایک سر گرم کارکن رستم اسماعیل بیلی نے وی او سے بات کرتے ہوئے کہا ، کہ یہ حقیقت کہ آج یہ تنازعہ انتہا پسند بنیاد پرست حماس اور اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے درمیان محاذ آرائی کی شکل اختیار کر گیا ہے اور گزشتہ 30 برسو ں کے حالات کا نتیجہ ہے ۔
غزہ میں حالات کے بگاڑ میں اضافے کے باوجود ، آذر بائیجان اور اسرائیل بظاہر اس اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کرنے کے لیے پر عزم دکھائی دیتے ہیں جو دونوں کو مسلسل فائدہ پہنچا تی ہے ۔
(اصغر اصغروف، آذر بائیجان سروس، وی او اے )
فورم