اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیر کے روز غزہ میں جاری جنگ روکنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی کا مطلب غزہ کے عسکریت پسند حکمرانوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترداف ہے۔
نیتن یاہو نےپریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ دوسرے ممالک کو چاہیے کہ وہ ان 230 سے زیادہ یرغمالوں کی آزادی کے لیے ہماری جدوجہد میں مزید مدد کریں جنہیں حماس کے جنگجو 7 اکتوبر کے حملے کے دوران اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے Xپر غیر ملکی میڈیا کے لئے ایک بیان پوسٹ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "حماس کی 7 اکتوبر کی ہولناکیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ جب تک مہذب دنیا، وحشیوں سے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہو گی، تب تک ہم ایک بہتر مستقبل کے وعدے کو پورا نہیں کر سکیں گے۔"
اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی کمیونٹی کو لازمی طور پر یرغمالوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ یرغمال بنائے جانے والوں میں 33 بچے بھی شامل ہیں اور حماس انہیں یرغمال رکھ کر دہشت زدہ کر
رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے پریس کانفرنس میں امریکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح امریکہ پرل ہاربر پر بمباری کے بعد اور نائین الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہوا تھا، اسی طرح اسرائیل بھی 7 اکتوبر کے خوفناک حملوں کے بعد حماس کے ساتھ دشمنی ختم کرنے پر تیار نہیں ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل سے حماس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے اپیل کرنا، حماس کے سامنے، دہشت گردی کے سامنے اور بربریت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ ہے۔ ایسا نہیں ہو گا۔
نیتن یاہو نے پریس کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ اسرائیل یہ جنگ جیتنے تک لڑے گا۔ انہوں نے بتایا کہ فوج غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے بہت زیادہ اقدامات کر رہی ہے۔
دوسری جانب حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کو غزہ پر اسرائیلی بمباری شروع ہونے کے بعد سے اب تک 8306 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر کی علی الصباح کو حماس نے اسرائیل پر پانچ ہزار سے زیادہ راکٹ داغنے کے ساتھ اپنے 1500 کے لگ بھگ جنگجو اسرائیلی آبادیوں میں داخل کر دیے تھے۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس حملے میں 1400 اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے جب کہ عسکریت پسند 230 سے زیادہ افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم