یمن کے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں ایک مال بردار مبینہ اسرائیلی بحری جہاز پر قبضہ کیا ہے جس میں سوار عملے کے 25 افراد کو بھی یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق حکام نے بتایا ہے کہ حوثی باغیوں نے اتوار کو جہاز کو اپنی تحویل میں لیا۔
اس اقدام کے بعد خطے میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران کشیدگی مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ ایران حوثی باغیوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ حوثیوں کے مطابق انہوں نے اس بحری جہاز کو اسرائیل سے تعلق کے شبہے میں ہائی جیک کیا ہے۔
اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ وہ اسرائیل سے تعلق رکھنے والے یا اسرائیلیوں کی ملکیت کے مزید بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنائیں گے اور اس وقت تک یہ کارروائیاں جاری رہیں گی جب تک اسرائیل غزہ میں حماس کے خلاف اپنی کارروائیاں نہیں روکتا۔
حوثیوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان تمام جہازوں جو 'دشمن' اسرائیل کی ملکیت ہیں یا وہ اس سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھتے ہیں، وہی بنیادی ہدف ہوں گے۔
حوثیوں کے مرکزی مذاکرات کار اور ترجمان محمد عبد السلام نے ایک آن لائن جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ اسرائیلیوں کو صرف طاقت کی زبان ہی سمجھ آتی ہے۔
جہاز کو ہائی جیک کیے جانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف آغاز ہے۔ اسرائیل کے جہاز کو تحویل میں لینا یمن کی مسلح فورسز کا اس تنازعے میں سمندری جنگ میں شمولیت کے حوالے سے سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے اور اسے اس کی قیمت کی بھی پروا نہیں ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس جہاز پر کوئی بھی اسرائیلی سوار نہیں تھا۔
یہ بحری جہاز جو بہاماس میں رجسٹرڈ ہے جب کہ اسے گاڑیاں لے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کا تعلق اسرائیل کے ایک ارب پتی کاروباری شخص سے ہے۔
اس شپ کو جاپان کی کمپنی این وائی کے لائن چلاتی ہے۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ جس وقت بحری جہاز کو ہائی جیک کیا گیا تو اس پر کوئی بھی کارگو موجود نہیں تھا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ بحری جہاز کے عملے میں فلپائن، بلغاریہ، رومانیہ، یوکرین اور میکسیکو کے شہری شامل ہیں۔
جاپان نے پیر کو ایک بیان میں اس بحری جہاز کو ہائی جیک کرنے کے اقدام کی مذمت کی ہے۔
جاپان کی حکومت عملے کی بازیابی کے لیے حوثیوں سے مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے بقول وہ اسرائیل سے بھی رابطے میں ہے جب کہ سعودی عرب، اومان اور ایران کی بھی مذاکرات میں معاونت حاصل کی جا رہی ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جہاز کو تحویل میں لینا ایرانیوں کی دہشت گردی کا اقدام ہے۔
اسرائیل کی فوج نے جہاز کی ہائی جیکنگ کو عالمی سطح پر گہرے اثرات رکھنے والا واقعہ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی حکام مستقل یہ زور دے رہے ہیں کہ یہ بحری جہاز برطانوی کمپنی کی ملکیت ہے جب کہ جاپان کی کمپنی اس کا انتظام سنبھال رہی ہے۔
’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اس بحری جہاز کے حوالے سے دستیاب معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ جہاز ’رے کار کیریئر‘ سے متعلق ہے۔ اس کمپنی کے مالک ابرہام رامی اونگر ہیں۔ وہ اسرائیل کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔
جہاز کے حوثیوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے کے حوالے سے اونگر نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ وہ اس واقعے سے باخبر ہیں۔
قبل ازیں 2021 میں ان کے ایک جہاز میں خلیجِ عمان میں دھماکہ ہوا تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے اس وقت الزام عائد کیا تھا کہ اس دھماکے میں ایران ملوث تھا۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع کے حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ حوثیوں نے بحری جہاز ’گلیکسی لیڈر‘ پر اتوار کی دوپہر کو قبضہ کیا تھا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکام کا مزید کہنا تھا کہ حوثی باغیوں نے جہاز تک پہنچنے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا اور رسیوں کے ذریعے اس پر اترے۔
خیال رہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ 240 کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا جو اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں۔
اسرائیل نے سات اکتوبر کو غزہ کا محاصرہ کرکے بمباری شروع کر دی تھی۔ اسرائیلی حکومت نے یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کے خاتمے تک اعلان جنگ کیا۔ اس جنگ کے دوران اب تک حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق لگ بھگ 13 ہزار افراد فلسطینیوں کی موت ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ اس جنگ کے آغاز کے بعد ایران کے حامی یمن کے حوثی باغیوں نے بھی جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران حوثیوں نے اسرائیل پر متعدد بار ڈرون سے حملے کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ میزائل بھی داغے ہیں البتہ اسرائیل کے دفاعی نظام نے یہ حملے ناکام بنا دیے۔
رواں ماہ حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں امریکہ کا بھی ایک ڈرون مار گرایا تھا۔ امریکہ نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان کے مطابق حوثی باغیوں کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں جو دو ہزار کلومیٹر تک اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اس رپورٹ میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔