پوپ فرانسس نے بدھ کے روز حماس کی تحویل میں یرغمال افراد کے اسرائیلی عزیزوں اور ایسے فلسطینیوں سے الگ الگ ملاقات کی جن کے رشتہ دار غزہ میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنازع جنگ سے آگے بڑھ کر دہشت گردی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
پوپ فرانسس نے اپنی رہائش گاہ میں ہونے والی ملاقاتوں کے فوراً بعد سینٹ پیٹرز اسکوائر میں سامعین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دونوں فریقوں سےبراہ راست یہ سنا ہے کہ تنازع میں وہ ’’ کس طرح تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ ‘‘
پوپ کا کہنا تھا کہ’’ جنگوں کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ہم جنگوں سےکہیں آگے نکل گئے ہیں۔ یہ جنگ نہیں ہے۔ یہ دہشت گردی ہے ۔‘‘ا
نہوں نے کہا کہ دعا کرنی چاہئیے تاکہ دونوں فریق "جذباتی ہو کر اس طرح آگے نہ بڑھیں کہ آخر میں سب ہی مار ڈالے جائیں۔‘‘
ویٹیکن میں اسرائیل کے سفیر رافیل شٹز نے کہا کہ وہ پوپ کی طرف سے ادا کیے گئے الفاظ کا براہ راست حوالہ نہیں دینا چاہتے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ ’’ایک سادہ سا فرق یہ ہے کہ ایک طرف قتل، آبروریزی اور اپنے ہی لوگوں کی پرواہ نہ کرنا ہے جب کہ دوسری طرف اپنے دفاع کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔‘‘
شٹز ایک نیوز کانفرنس میں ان اسرائیلی خاندانوں سے خطاب کر رہے تھے جنہوں نے پوپ سے ملاقات کی تھی۔ ان میں سے بیشتر افراد نے کہا کہ وہ پوپ کے بیان سے آگاہ نہیں کیونکہ وہ ملاقات کے بعد دیا گیا۔ فلسطینی خاندانوں کو بھی بدھ کے بعد میں ایک نیوز کانفرنس کرنا تھی۔
عوام سے خطاب کے دوران ہجوم میں موجود فلسطینیوں کے ایک گروپ نے سفید کپڑوں میں لپٹی لاشوں کی تصاویر اور ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر تحریر تھا کہ ’’نقبہ جاری ہے۔‘‘
نقبہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تباہی کے ہیں اور اس سے مراد 1948 کی جنگ کے دوران فلسطینیوں کا بے گھر اور بے دخل ہونا ہے جو اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہوا ۔
پوپ کا بیان اور ان ملاقاتوں کا احوال اسرائیل اور حماس کے غزہ میں کم از کم چار دن کے لیے جنگ بندی پر رضامندی کے چند گھنٹے بعد سامنے آئے ہیں ۔
اس جنگ بندی کا مقصد امداد کی فراہمی کی اجازت دینا ہے اور عسکریت پسندوں کی تحویل میں موجود کم از کم 50 یرغمالوں کو رہا کرانا ہے ۔ ان کی رہائی اسرائیل میں قید کم از کم 150 فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں ہو گی۔
حماس کے عسکریت پسندوں کے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیلی قصبوں پر حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور مسلسل بمباری بھی جاری ہے ۔
اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق حماس کے حملوں میں 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں بیشتر عام شہری تھے جب کہ 240 کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
حماس کے زیر اقتدار علاقے کے طبی حکام اور اقوام متحدہ کے قابل اعتماد اعداد و شمار کے مطابق غزہ کے 14000 سے زیادہ باشندے مارے جا چکے ہیں جن میں سے تقریباً 40 فیصد بچے ہیں۔
اس رپورٹ کی تفصیل خبر رساں ادارے رائٹرز سے لی گئی ہے۔
فورم