رسائی کے لنکس

بھارت: کیا پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج 2024 کے انتخابات پر اثرانداز ہوں گے؟


بھارت میں 2024 میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر سب کی نظریں مرکوز تھیں۔ انتخابات مکمل ہو گئے ہیں اور ان کے ایگزٹ پول کے نتائج بھی سامنے آ گئے ہیں۔ ووٹوں کی گنتی تین دسمبر کو ہو گی اور توقع ہے کہ اسی روز حتمی نتائج آ جائیں گے۔

ایگزٹ پولز یعنی ووٹ دے کر باہر آنے والے رائے دہندگان سے ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر جو مجموعی نتائج نکالے گئے ہیں اس کے مطابق دو ریاستوں چھتیس گڑھ اور تیلنگانہ میں کانگریس جب کہ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت بن سکتی ہے۔ جب کہ میزورم میں معلق اسمبلی کے وجود میں آنے کا امکان ہے۔

کئی رائے شماریوں میں کانگریس کی دو یعنی چھتیس گڑھ اور تیلنگانہ میں اور بی جے پی کی ایک یعنی راجستھان میں ممکنہ کامیابی دکھائی جا رہی ہے۔ بعض رائے شماریوں میں مدھیہ پردیش میں معلق اسمبلی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل کی قیادت میں اور راجستھان میں اشوک گہلوت کی قیادت میں کانگریس کی حکومت ہے۔ مدھیہ پردیش میں شیو راج سنگھ چوہان کی قیادت میں بی جے پی برسراقتدار ہے۔ تیلنگانہ میں ’بھارتیہ راشٹریہ سمیتی‘ (بی آر ایس) برسراقتدار ہے اور اس کے صدر کے سی آر وزیر اعلیٰ ہیں۔

میزورم میں علاقائی جماعت ’میزو نیشنل فرنٹ‘ (ایم این ایف) کی حکومت ہے اور زورم تھنگا وزیر اعلیٰ ہیں۔ وہاں اس کا مقابلہ ایک دوسری علاقائی جماعت ’زورم پیپلز موومنٹ‘ (زیڈ پی ایم) سے ہے۔

لوک سبھا کے الیکشن پر کیا فرق پڑے گا؟

مبصرین کے مطابق جب بھی پارلیمانی انتخابات سے قبل اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں تو ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور انھیں گہری دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔ اس بار بھی ان انتخابات کو دلچسپی اور توجہ سے دیکھا گیا ہے۔

اب جب کہ انتخابی عمل مکمل ہو چکا اور ایگزٹ پولز کے نتائج سامنے آ گئے ہیں قومی سطح پر یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کیا ایگزٹ پولز کے نتالج درست ثابت ہوں گے اور اگر ہوں گے تو کیا ان کے اثرات پارلیمانی انتخابات پر بھی پڑیں گے۔

اس کے ساتھ ہی یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ کیا وزیرِ اعظم نریندر مودی مرکز میں مسلسل تیسری بار اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ کیا اپوزیشن جماعت کانگریس کی قسمت بدلنے والی ہے؟ اور کیا حزبِ اختلاف کے اتحاد ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائنس‘ (انڈیا) کو پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی زیر قیادت اتحاد ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) پر سبقت حاصل ہو جائے گی؟

'ریاستی انتخابات کے نتائج سے مرکزی الیکشن کو نہیں جانچا جا سکتا'

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو اگرچہ 2024 سے قبل سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں پارلیمانی انتخابات کو نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ ہی ان نتائج کو قومی نتائج کا اشاریہ سمجھا جانا چاہیے۔

سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ کا کہنا ہے کہ ایگزٹ پولز کے نتائج غیر متوقع ہیں۔ ان کے مطابق ان نتائج کی روشنی میں بی جے پی اور کانگریس کو دو، دو ریاستوں میں فتح حاصل ہو سکتی ہے اور ایک ریاست میں معلق اسمبلی آسکتی ہے۔

ہرویر سنگھ کے مطابق انتخابی مہم کے دوران رائے دہندگان کے موڈ سے پتا چلتا ہے کہ بی جے پی کو صرف ایک ریاست یعنی مدھیہ پردیش میں کامیابی مل سکتی ہے۔ اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ کچھ پولز وہاں معلق اسمبلی دکھا رہے ہیں۔

اس سے قبل بیشتر تجزیہ کاروں کی رائے رہی ہے کہ اسمبلی انتخابات کا اثر پارلیمانی انتخابات پر بہت کم پڑتا ہے۔ لیکن ہرویر سنگھ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن اس بار صورتِ حال کچھ مختلف ہے۔

ان کے مطابق ان پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج جو بھی ہوں لیکن ان کا اثر پارلیمانی انتخابات پر پڑے گا۔ وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولز کے نتائج سے قطع نظر انتخابی مہم کا جائزہ لینے سے بھی پتا چلتا ہے کہ پانچوں ریاستوں میں بی جے پی کی پوزیشن کمزور رہی ہے۔

ان کے بقول انتخابی مہم کے دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ریلیوں میں عوام کی کم شرکت اور راہل گاندھی کی ریلیوں میں زیادہ شرکت رہی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ جب کہ ان کے مقابلے میں راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

لیکن بعض تجزیہ کار اس سے متفق نہیں ہیں کہ بی جے پی کی انتخابی مہم کمزور رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے ہمیشہ کی طرح بھرپور مہم چلائی۔ اس کے علاوہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مقبولیت بھی اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ اس کی وجہ وہ حکومت کی جانب سے چلائی جا رہی فلاحی اسکیموں کو بتاتے ہیں۔

تجزیہ کار اجے کمار کا کہنا ہے کہ ایگزٹ پولز میں بی جے پی کو دو ریاستوں میں کامیاب دکھایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کے پروگراموں اور اعلانات پر عوام کا اعتماد برقرار ہے۔ اگر وہ دو میں کامیاب ہوتی ہے تو ایک ریاست میں فائدے میں رہے گی۔

انھوں نے اس سے انکار کیا کہ وزیرِ اعظم کی ریلیوں میں لوگوں کی شرکت کم رہی۔ ان کے بقول وزیرِ اعظم کی مقبولیت برقرار ہے اور پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔

سن 2018 میں کانگریس نے بی جے پی کو تین ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں شکست دی تھی۔ لیکن چند ماہ بعد 2019 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اسے بی جے پی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بی جے پی نے ان تین ریاستوں میں 65 لوک سبھا حلقوں میں سے 61 پر کامیابی حاصل کر لی تھی۔ لہذٰا اسمبلی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔

ایک نیوز ویب سائٹ ’منی کنٹرول‘ کے نلن مہتہ کے خیال میں اگر ایگزٹ پول کے اس نتیجے کو مان لیا جائے کہ کانگریس اور بی جے پی دو دو دریاستوں میں حکومت بنانے جا رہی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’برینڈ مودی‘ اب بھی کام کر رہا ہے۔

ان کے مطابق بی جے پی نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں وزیرِ اعلیٰ کے امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔ حالاں کہ دونوں ریاستوں میں اس کے بڑے رہنما موجود ہیں۔

مدھیہ پردیش میں وزیرِ اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان ہیں اور راجستھان میں سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا ہیں۔ لیکن وہاں بی جے پی نے وزیر اعظم کے چہرے پر الیکشن لڑا۔

ان کا کہنا ہے کہ مدھیہ پردیش گجرات کے پہلے سے ہی بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) کا گڑھ رہی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں وہاں بی جے پی کے اندر داخلی اختلافات پیدا ہوئے جس سے اسے نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں شیو راج سنگھ کو وزیرِ اعلیٰ کے چہرے کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ اب اگر وہاں بی جے پی کامیاب ہوتی ہے تو اسے وزیر اعظم مودی کی مقبولیت مانا جائے گا۔

ہرویر سنگھ کے مطابق بی جے پی جس ریاست میں اپنی تنظیم کی کمزوری یا داخلی اختلافات دیکھتی ہے وہاں وہ وزیر اعظم مودی کا چہرہ آگے کر دیتی ہے اور وزیر اعظم بھی رائے دہندگان سے کہتے ہیں کہ وہ انھیں ووٹ دیں۔ اس کی یہ حکمت عملی اب تک کامیاب رہی ہے۔

ان کے مطابق اگر ان پانچوں ریاستوں میں بی جے پی کی پوزیشن اس کی توقعات کے مطابق نہیں رہی تو وہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں پھر نریندر مودی کو ہی آگے رکھ کر الیکشن لڑے گی۔

تاہم بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایگزٹ پولز کے نتائج کی روشنی میں کوئی رائے قائم کرنا مناسب نہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پارلیمانی انتخابات کو بھی متاثر کریں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG