گزشتہ ہفتے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت فلسطینی قیدیوں کی رہائی نے مغربی کنارے کے علاقے میں تقریباً سب ہی کو متاثر کیا ،جہاں 1967 سے اب تک ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں حماس نے اسرائیلی یرغمالوںی رہائی کے بدلے، ان فلسطینی قیدیوں میں سے جو اسرائیل کے پاس تھے، زیادہ نمایاں فلسطینی قیدیوں کو چھوڑنے پر زور دیا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی قید میں زیادہ تر فلسطینی نوجوان ہیں جو آدھی رات کے وقت اسرائیلی بستیوں کے قریب دیہاتوں میں پتھر اور فائر بم پھینکنے کے الزام میں گرفتار کئے جاتے ہیں۔
گاؤں نبی صالح
نبی صالح بھی ایک ایسا ہی گاؤں ہے جو طویل عرصے سے بنیادی سطح پر اپنی احتجاجی تحریک کے لئے جانا جاتا ہے۔ اسرائیل کی کارروائیوں نے پوری کمیونٹی کو متاثر کیا ہے جہاں نسل در نسل والدین یہ سمجھتے آئے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے معاملے میں قطعی بے بس ہیں۔
رپورٹ میں نبی صالح سے نوجوان لڑکوں کی ان کے والدین کی نگاہوں کے سامنے گرفتاریوں، قید اور پھر یرغمالوں کے بدلے اسرائیل میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے معاہدے کے تحت ان میں سے کچھ کی رہائی کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نبی صالح نامی یہ گاؤں، ایک ایسی جگہ ہے جہاں جیل جانا فلسطینی لڑکوں کے لیے ایک تکلیف دہ رسم بن گئی ہے۔
یہاں اقوام متحدہ کے مطابق 1967 کی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کے بعد سے جب اسرائیل نے پورے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، کوئی ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اسرائیلی فوج نابالغوں سمیت بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کادفاع جنگجوؤں کے حملے روکنے کے استدلال سےکرتی ہے۔ ایک بیان میں فوج نے کہا کہ وہ مشتبہ لوگوں کے حقوق اور وقار کو محفوظ رکھتی ہے۔
نبی صالح کے پانچ سو پچاس مکینوں میں سے زیادہ تر خون یا شادی کے رشتوں سے ایک دوسرے کے عزیز ہیں۔ اور زیادہ تر لڑکے اپنے باپ دادا کی طرح جیل جا چکے ہیں۔ اور یہ گاؤں اپنے مظاہروں کے لئے شہرت رکھتا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے وقفے میں اسرائیل نے دو سو چالیس نا بالغوں اور خواتین کو رہا کیا۔ ایک ایڈووکیسی گروپ فلسطینی قیدی کلب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی قید خانوں کی سروس کے اعدادو شمار کے مطابق چودہ سے سترہ سال کے درمیان عمر کے جو قیدی رہا کئے گئے، ان میں سے بیشتر کو تحقیقات کے لئے پکڑا گیا تھا، جنہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔
گروپ کا کہنا ہے اسی ہفتے اسرائیل نے دو سو ساٹھ دوسرے فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔ ملٹری کورٹ واچ کے مطابق اسرائیلی فوجی عدالت سالانہ سینکڑوں نابالغوں کو سزائیں سناتی ہے۔ جن میں سے بیشتر کو یہ سزائیں پتھراؤ کرنے کے الزام میں دی جاتی ہیں۔
اور ان کی عمریں سولہ سے سترہ سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ پتھراؤ خطرناک اور مہلک ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کا موقف
اسرائیل کے انسانی حقوق کے گروپ ہاموکڈ کے مطابق جنگ۔ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل نے پورے غزہ میں تین ہزار چار سو پچاس فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے۔
اور اسرائیل کی شن بیت سیکیورٹی سروس کے سابق ڈائیریکٹر ایمی آئیلون کا کہنا ہے کہ یہ کریک ڈاؤن ایک طرح سے ہمارے مغربی کنارے پر ایک اور محاذ نہ کھولنے کے ارادے کی تردید ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ فوجی صرف اس وقت مداخلت کرتے ہیں جب احتجاجی پتھراؤ کرتے ہیں اور فوجی زون میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
نبی صالح گاؤں کے مروان تمیمی نے اپنے بیٹوں سے التجا کی ہے کہ وہ اس سے، جسے فلسطینی مقاومہ یا مزاحمت کہتے ہیں دور رہیں۔
ادھر اسرائیل کی قیدیوں کی سروس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھے جاتے ہیں۔ یا ان کے کھانے میں کمی کردی جاتی ہے۔ لیکن قومی سلامتی کے اسرائیلی وزیر اتمار بن گور نے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ سخت تادیبی روئیے کو فروغ دیا ہے۔
اسرائیلی قید خانے کی سروس کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو قانون کے مطابق پکڑا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔
فورم