امریکہ اور دوسرے متعدد ممالک بحیرہ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں کو یمن کےحوثیوں کے کنٹرول والے علاقوں میں ڈرون اور میزائیل حملوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک نئی فورس تشکیل دے رہےہیں۔ اس بات کا اعلان امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے منگل کو بحرین میں کیا۔
اے ایف پی کے مطابق یمن میں ایران کی پشت پناہی کے حامل حوثی باغیوں نے منگل کے روز کہا کہ وہ امریکہ کی جانب سے ایک نئی میری ٹائم پروٹیکشن فورس کی تشکیل کے اعلان کے باوجود بحیرہ احمر میں حملے نہیں روکیں گے۔
ایک سینئیر حوثی عہدے دار محمد ال بوخیتی نے ایکس( سابق ٹوئٹر) پر کہا کہ، اگر امریکہ تمام دنیا کو متحرک کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا تو بھی ہماری فوجی کارروائیاں نہیں رکیں گی ۔ بخیتی نے کہا کہ باغی اپنے حملے صرف اسی صورت میں روکیں گے اگر غزہ میں اسرائیل کے جرائم رک جائیں اور محصور آبادی تک خوراک ، ادویات اور ایندھن کو پہنچنے دیا جائے ۔
ان حملوں کی سنگینی کے پیش نظر ،جن میں سےبیشتر نے بحری جہازوں کو نقصان پہنچایا ہے، متعدد شپنگ کمپنیوں نے اپنے بحری جہازوں کو اس وقت تک سفر اور آبنائے باب المنداب میں داخل ہونے سے روک دیا ہے جب تک سیکیورٹی کی صورتحال ٹھیک نہ ہو جائے ۔
امریکی فوج کی سنٹرل کمانڈنے پیر کے روز کمرشل بحری جہازوں پر دو اور حملوں کی خبر دی۔ فوج نے کہا کہ یمن کے قریب ایک ٹینکر پر ایک ڈرون اور میزائل کا حملہ ہوا اور لگ بھگ اسی وقت قریب ہی ایک مال بردار بحری جہاز نے پانی میں کسی دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے کی خبر دی ۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بحرین میں جاری ایک بیان میں کہا کہ “ یہ ایک بین الاقوامی چیلنج ہے جو اجتماعی اقدام کا متقاضی ہے ۔ اس لیے آج میں آپریشن پراسپیریٹی گارڈین کی تشکیل کا علان کر رہا ہوں جو سیکیورٹی کا ایک اہم نیا ملٹی نیشنل اقدام ہے ۔ “
آسٹن نے اعلان کیا کہ اس نئے مشن میں امریکہ کے ساتھ برطانیہ ، بحرین ، کینیڈا ، فرانس ،اٹلی ، نیدرلینڈز ، ناروے ، سےشیلز اور اسپین شامل ہوں گے ۔
ان میں سے کچھ ملک مشترکہ گشت کریں گے جب کہ دوسرے جنوبی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں انٹیلی جنس کی معلومات فراہم کریں گے۔
محکمہ دفاع کے ایک عہدے دار نے نئے مشن کی مزید تفصیلات کے بارے میں ، جن کا عوامی طو ر پر اعلان نہیں کیا گیا ،اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ متعدد دوسرے ممالک بھی اس کارروائی میں شامل ہونے پر تیار ہو گئے ہیں لیکن ان کی ترجیح ہے کہ ان کا نام کھلے طور پر ظاہر نہ کیا جائے ۔
اس مشن کو پہلے سے موجود اس مشترکہ ٹاسک فورس 153 ، (CTF 153) سے مربوط کیا جائے گا جسے بحیرہ احمر اور باب المنداب اور خلیج عدن میں بحری سیکیورٹی بہتر بنانےکے لیے اپریل 2022 میں تشکیل دیا گیا تھا ۔
سی ٹی ایف 153 میں 39 رکن ملک شامل ہیں لیکن عہدے دار یہ تعین کرنے کے لیے کام کرر ہے ہیں کہ ان میں سے کون اس تازہ ترین کوشش میں شرکت کرے گا۔
ایک الگ خبر کے مطابق امریکہ نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل پر بھی زور دیا ہے کہ وہ حملوں کے خلاف ایکشن لے۔
امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کونسل کے ارکان کو ایک خط میں، جسے ایسو سی ایٹڈ پریس نےپیر کے روز حاصل کیا، کہا کہ بین الاقوامی آبی شاہراہوں سے قانونی طور پر گزرنے والے کمرشل بحری جہازوں، جہاز رانی کے حقوق اور آزادیوں ، بین الاقوامی بحری سیکیورٹی اور بین الاقوامی تجارت کو حوثی باغیوں کی جانب سے نشانہ بنا کرکیے گئے حملوں سے، مسلسل خطرہ لاحق ہے ۔”
پندرہ رکنی کونسل نے پیر کو بند دروازوں کے پیچھے حوثی خطرے پر گفتگو کی لیکن فوری طور پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔
امریکی جنگی جہاز، یو ایس ایس کارنی اور یو ایس ایس میسن،نیوی ڈیسٹرائرز۔۔۔ حوثیوں کے حملوں کو روکنے اور جوابی حملے کرنے میں مدد کے لیے روزانہ آبنائے باب المنداب میں متحرک ہیں ۔
توسیعی کارروائی کی تشکیل کا اقدام اس کے بعد کیا گیا ہے جب تین دسمبر کو یمن میں ایران کی پشت پناہی کے حامل حوثی باغیوں نے تین کمرشل بحری جہازوں پر میزائیلوں سے حملے کیے ۔
یہ حملے تشدد کی اس بڑھتی ہوئی مہم کا حصہ تھے جس میں امریکی جنگی بحری جہازوں پر مسلح اور دوسرے ڈرونز حملے بھی شامل تھے ۔
امریکہ نے تاحال نہ تو یمن میں فعال ایرانی پشت پناہی کے حامل حوثیوں پر جوابی حملے کیے ہیں اور نہ ہی عسکریت پسندوں ، ہتھیاروں اور دوسرے مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔
پیر کے روز آسٹن نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ پینٹاگان نے کوئی جوابی حملہ کیوں نہیں کیا۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم