بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے لکش دیپ کے دورے پر مالدیپ کے وزرا کے تبصرے پر تنازع پیدا ہو گیا ہے جس کے بعد سے سوشل میڈیا پوسٹس کے مطابق سیاحت کے لیے مالدیپ جانے والے متعدد بھارتی شہریوں نے اپنا دورۂ منسوخ کر دیا ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے تین دن قبل چار جنوری کو لکش دیپ کا دورہ کیا تھا اور سمندر میں ’اسنارکلنگ‘ یعنی زیرِ آب پیراکی کی تھی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ پر جزائر لکش دیپ کے اپنے دورے کا پرجوش تجربہ شیئر کیا تھا۔
واضح رہے کہ لکش دیپ بھارت کی ریاست کیرالہ کے ساحل سے 300 کلومیٹر کی دوری پر بحیرہ عرب میں کئی جزائر کا مجموعہ ہے جن میں چند آباد ہیں۔ سیاحوں کے لیے ان جزائر کی خوب صورتی کے سبب کافی کشش موجود ہے۔ مبصرین کے مطابق مالدیپ سے حالیہ عرصے میں سفارتی کشیدگی کے سبب بھارت اب ان جزائر پر سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔
مالدیپ کے ایک وزیر عبد اللہ محزوم ماجد نے وزیرِاعظم کے دورے کو بھارت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کی کوشش تصور کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارت مالدیپ سے اپنی توجہ ہٹا کر لکش دیپ کو ایک دوسرے سیاحتی مرکز کے طور پر فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کو ساحلی سیاحت میں مالدیپ سے ایک چیلنج کا سامنا ہے۔
مالدیپ کی حکومت نے وزیرِ اعظم مودی کے بارے میں بیانات دینے کی وجہ سے تین وزرا مریم شئیونا، عبد اللہ محزوم ماجد اور مالشا شریف کو معطل کر دیا ہے۔ مالدیپ کی وزارتِ خارجہ نے اس سلسلے میں باقاعدہ بیان بھی جاری کیا ہے۔
مالدیپ حکومت میں نوجوانوں سے متعلق وزارت میں نائب وزیر مریم شئیونا نے وزیرِ اعظم مودی کو ان کے الفاظ میں ’جوکر‘ اور ’کٹھ پتلی‘ قرار دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے بعد اسے ڈیلیٹ کر دیا ہے۔
ایک اور وزیر زاہد رمیض نے بھی وزیرِ اعظم کے دورۂ لکش دیپ کا مذاق اڑایا۔
انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ وزیرِ اعظم مودی کے اس اقدام سے مالدیپ کو دھچکہ لگا ہے۔ اب لکش دیپ میں سیاحت کو فروغ حاصل ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اچھا قدم ہے لیکن ہم سے مقابلہ کرنا ایک فریب ہے۔ وہ ان کے جیسی سروسز کیسے فراہم کر سکتے ہیں۔ وہ اتنے صاف ستھرے کیسے ہو سکتے ہیں؟ کمروں کی بدبو سب سے بڑی تباہی ہو گی۔
ان بیانات کو گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں محمد معیزو کی کامیابی کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں آئی سرد مہری کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید نے مریم کے بیان کو توہین آمیز قرار دیا۔
انہوں نے اسے نفرت انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت مالدیپ کی سیکیورٹی اور خوش حالی کے لیے ایک کلیدی حلیف ہے۔
مالدیپ کے سفیر کی وزارتِ خارجہ طلبی
بھارت نے وزیرِ اعظم مودی کے خلاف توہین آمیز بیان دینے پر مالدیپ کے سفیر ابراہیم شہیب کو وزارت خارجہ میں طلب کیا اور سخت احتجاج درج کرایا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں انھیں وزارتِ خارجہ جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ادھر مالے میں بھارتی ہائی کمشنر نے وہاں کی وزارت خارجہ سے احتجاج کرتے ہوئے بیانات کو ناقابلِ قبول اور غیر ضروری قرار دیا ہے۔
مالدیپ کی حکومت نے وزیر اعظم مودی کے بارے میں توہین آمیز بیانات دینے کی وجہ سے تین وزرا مریم شئیونا، عبد اللہ محزوم ماجد اور مالشا شریف کو معطل کر دیا ہے۔ وہاں کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے اس کی اطلاع دی ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم مودی نے لکش دیپ کے دورے میں ’کوچی لکش دیپ آئی لینڈ سب میرین آپٹیکل فائبر کنکشن‘ کا افتتاح کیا تھا جب کہ صحت کے مراکز اور خواتین کے آنگن واڑی مراکز کی تعمیر نو کی بنیاد رکھی تھی۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ پر پوسٹ میں لکھا تھا کہ انہیں لکش دیپ کے عوام کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ وہ ان جزائر کی خوب صورتی اور عوام کی گرم جوشی سے پرجوش ہیں۔ انہیں لوگوں سے گفتگو کا موقع ملا۔ وہ ان کی مہمان نوازی کا شکر گزار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی توجہ ترقی کے فروغ کے ذریعے عوام کا معیارِ زندگی بہتر کرنے، ان کو بہتر صحت خدمات فراہم کرنے، تیز انٹرنیٹ اور پینے کے پانی کی فراہمی اور مقامی ثقافت کے تحفظ پر ہے جن منصبوں کا افتتاح کیا گیا ہے ان سے ان عزائم کی عکاسی ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ مالدیپ کے موجودہ صدر محمد معیزو چین کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ پیر کو چین کا دورۂ بھی کرنے والے ہیں۔
انہوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھارت سے کہا کہ وہ مالدیپ سے اپنے سیکیورٹی اہل کاروں کو واپس بلا لے۔
ان کے حریف اور سابق صدر ابراہیم محمد صالح بھارت کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے دورِ حکومت میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو فروغ حاصل ہوا تھا۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ نے معیزو کو چین کے دورے کی دعوت دی ہے۔
بھارتی خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کے مطابق چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے ایک بیان میں کہا کہ چین اور مالدیپ پرانے دوست ہیں۔ 52 سال قبل سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد دونوں ایک دوسرے سے احترام سے پیش آئے ہیں اور دونوں نے ایک دوسرے کی حمایت کی ہے۔
ان کے بقول دونوں ملکوں کے رقبوں میں فرق کے باوجود مساوات اور باہمی مفادات کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔
مبصرین کے مطابق اب تک کی مالدیپ کی یہ روایت رہی ہے کہ وہاں کے منتخب صدر پہلے بھار ت کا دورہ کرتے رہے ہیں۔
محمد معیزو نے گزشتہ برس دسمبر میں دبئی میں ہونے والے کوپ 28 کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔
فریقین نے کثیر الجہتی باہمی تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کے غرض سے ایک کور گروپ تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
اس ملاقات سے قبل معیزو نے بھارت سے کہا تھا کہ وہ اپنی فوج کے 77 اہل کاروں کو ملادیپ سے واپس بلا لے۔
انہوں نے دونوں ملکوں کے مابین 100 سے زیادہ معاہدوں پر نظرِ ثانی کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
مالدیپ کے نائب صدر حسین محمد لطیف نے گزشتہ ماہ چین کا دورہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ چین نے مالدیپ میں ترقیاتی منصبوں میں کافی سرمایہ کاری کی ہے۔
بھارتی شہریوں کے مالدیپ کے دورے منسوخ کرنے کا اعلان
دریں اثنا سوشل میڈیا پر بھارتی کے متعدد شہریوں نے سیاحت کے غرض سے مالدیپ جانے کا دورۂ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہاں کے وزرا کے بیانات کے بعد متعدد بھارتی صارفین نے ’بائیکاٹ مالدیپ‘ کی بھی اپیل کی ہے۔
یاد رہے کہ 2021 میں دو لاکھ 91 ہزار جب کہ 2022 میں دو لاکھ 41 ہزار بھارتی شہری سیاحت کے لیے مالدیپ گئے۔
بھارتی نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق مالے میں بھارتی ہائی کمیشن نے وزیرِ اعظم مودی کے خلاف توہین آمیز بیان کا معاملہ معیزو حکومت کے سامنے اٹھایا ہے۔
ادھر معیزو حکومت نے مریم شیئیونا کے ’توہین آمیز‘ بیان سے خود کو الگ کر لیا ہے۔
حکومت کے بیان کے مطابق یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں جو مالدیپ حکومت کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتے۔
حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ جن لوگوں نے تضحیک آمیز بیان دیا ہے ان کے خلاف کارروائی میں کسی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔
بیان کے مطابق حکومت سمجھتی ہے کہ اظہارِ کی آزادی کا استعمال اس طرح جمہوری اور ذمہ دارانہ انداز میں ہونا چاہیے کہ اس سے نفرت نہ پھیلے اور نہ ہی مالدیپ اور اس کے بین الاقوامی شراکت داروں سے اس کے تعلقات پر کوئی اثر پڑے۔
اسی درمیان عالمی امور کے ایک سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین نے بھی مالدیپ کے وزرا کے بیانات کو ان کا ذاتی بیان بتایا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہاں کے ایک وزیر کی جانب سے وزیرِ اعظم مودی کے لکش دیپ کے دورے کی مخالفت کرنا بھارت کے اندرونی امور میں مداخلت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت لکش دیپ میں سیاحت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ وہاں کوئی فوجی اڈہ قائم نہیں کر رہا ہے۔ اس لیے مالدیپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
ان کے بقول دونوں خود مختار ملک ہیں۔ بھارت مالدیپ کے علاقے پر قبضہ کرکے وہاں ساحلی سیاحت کو فروغ دینے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ بلکہ وہ اپنے ہی ملک کی زمین پر یہ کام کر رہا ہے۔ اور چونکہ بھارت بھی ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اس لیے اس کو اس کا حق ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ مالدیپ میں معیزو کی حکومت آنے کے بعد بھارت کے تعلق سے اس کی خارجہ پالیسی تبدیل ہو رہی ہے۔ اس حکومت نے کہا ہے کہ وہ اپنی ’انڈیا فرسٹ‘ کی پالیسی کو بدلے گی۔ اس نے 75 بھارتی فوجیوں کو بھی واپس بھیجنے کی بات کی ہے۔
ان کے خیال میں پالیسی میں تبدیلی مالدیپ کی حکومت کر رہی ہے۔ بھارت کی پالیسی جوں کی توں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ معیزو کے چین کے دورے کے بعد کیا تبدیلی آتی ہے۔