امریکہ نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست میں امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔
صدر جو بائیڈن کی حکومت کے حالیہ حمایت ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی غزہ جنگ کے بعد فلسطینی علاقے کے لیے وژن سے اختلاف سے قطع نظر اپنے منصوبے پر قائم ہے جس میں فلسطینی ریاست کا قائم شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس نے امید ظاہر کی ہے کہ واشنگٹن اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لا سکے گا۔
وائٹ ہاؤس سمجھتا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات میں پیش رفت ایک ایسا موقع ہو گا جس سے خطے میں وسیع اقتصادی اور سلامتی مواقع پیدا ہوں گے۔
اس سے قبل نیتن یاہو نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں فلسطینی ریاست کی اسکیم سے منہ موڑ لیا، اور اس بات پر اصرار کیا کہ اب فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی سیکیورٹی کنٹرول ہے۔
نیتن یاہو کے بقول "یہ خود مختاری کے خیال سے ٹکراتا ہے۔ آپ کیا کر سکتے ہیں؟"
وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے نیتن یاہو کے بیان کو مسترد کر دیا۔
جان کربی نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا کوئی نیا تبصرہ نہیں ہے۔ ہم ظاہر ہے کہ اسے مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔
جان کربی نے مزید کہا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست میں امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا پورا حق ہے۔
نیتن یاہو نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کو اپنے مؤقف سے آگاہ کر دیا ہے۔
نیتن یاہو کے مؤقف سے غزہ میں حماس کے خلاف فوجی مہم کے حامی امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے درمیان گہری تقسیم بھی ظاہر ہوتی ہے۔
واشنگٹن نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کے خلاف لڑائی میں اپنی جارحیت کو کم کرے جب کہ حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق محصور علاقے میں 24 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف فوجی کارروائی گزشتہ سال سات اکتوبر میں ہونے والے حملے کے بعد شروع کی۔
حماس کے اس حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ حملہ کئی دہائیوں میں اسرائیل میں ہونے والا سب سے زیادہ ہلاکت خیز واقعہ تھا۔
بائیڈن انتظامیہ اسرائیل دباؤ بڑھا رہی ہے۔ امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے خبردار کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے تنازع کے دو ریاستی حل کے راستے کے بغیر عرب ممالک غزہ کی تعمیر نو میں شامل نہیں ہوں گے۔
بلنکن نے رواں ماہ کے شروع میں نیتن یاہو کی جنگی کابینہ سے ملاقات کے بعد تل ابیب میں صحافیوں کو بتایا کہ اگر اسرائیل چاہتا ہے کہ اس کے عرب ہمسایہ ممالک اس کی پائیدار سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد کے لیے ضروری سخت فیصلے کریں۔ تو اسرائیلی رہنماؤں کو خود سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کا معاملہ
امریکہ اور اسرائیل کی فلسطینی علاقوں کے مستقبل پر تقسیم اس وقت سامنے آئی ہے جب بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کے بدلے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کی کوشش کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے رواں ہفتے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں کہا تھا کہ سات اکتوبر کے بعد کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ ہم اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان فلسطینیوں کو سیاسی افق سے منسلک دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بحران سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ امریکہ اپنے علاقائی شراکت داروں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور انضمام کے راستے پر سرگرم عمل ہے۔
یاد رہے کہ واشنگٹن سات اکتوبر کے حملوں سے پہلے سے ہی اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کے ایک فریم ورک پر کام کر رہا ہے۔ تاہم امریکہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات سے گریز کر رہا ہے اور اس کے بجائے علاقائی معاہدے پر زور دے رہا ہے۔
واشنگٹن کا یہ طریقہ کار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے ابراہیم معاہدوں کے تحت اس موقف کی توسیع ہے جس کے ذریعہ اسرائیل کے کچھ عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے گئے۔
تاہم بائیڈن کے نقطۂ نظر نے اس پالیسی میں فلسطینیوں کے لیے ایک سیاسی افق کا اضافہ کیا ہے ۔
امریکی حکام اور قانون سازوں نے حالیہ ہفتوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے اسرائیل اور حماس جنگ کے خاتمے اور غزہ میں فلسطینی خود مختاری کے لیے کام کرنے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنے کے اسی مقصد کے ساتھ ملاقات کی ہے۔
سلیوان نے جنگ کے بعد غزہ کے لیے امریکی وژن کے چار رہنما اصول پیش کیے۔
اول یہ کہ فلسطینی علاقہ (غزہ) دوبارہ کبھی بھی اسرائیل پر دہشت گردی کے حملوں کے لیے ایک لانچ پیڈ نہ بنے۔
دوسرا یہ کہ اسرائیل اور اس کے عرب پڑوسیوں کے درمیان پر امن تعلقات قائم ہوں۔
تیسرا یہ کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو۔
چوتھا یہ کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کی یقین دہانی مل جائے۔
غزہ سے نکلنے کی اسرائیلی حکمتِ عملی
نیتن یاہو اور ان کی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے ارکان کئی مہینوں سے فلسطینی ریاست کے تصور کو مسترد کرتے آرہے ہیں۔ ان میں قومی سلامتی کے وزیر اور وزیر خزانہ شامل ہیں جو غزہ پر مکمل اسرائیلی کنٹرول اور فلسطینیوں کی بے دخلی کی وکالت کر رہے ہیں۔
تاہم، فوجی مہم سے اسرائیل کو روزانہ 22 کروڑ ڈالر کا خرچ اٹھانا پڑ رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی حمایت میں کمی ہو رہی ہے۔ اس صورت میں نیتن یاہو شاید غزہ سے نکلنے کی حکمت عملی تلاش کر رہے ہوں۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کا معمول پر آنا جنگ زدہ وزیر اعظم کے لیے سیاسی جیت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جنہیں بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے اور اسرائیلی انٹیلی جنس کی جانب سے انتباہ کے باوجود حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی پر احتساب سے پہلو تہی کرنے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی میں امریکی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی کی پروفیسر ورجینیا پیج فورٹنا نے کہا کہ تعلقات کا معمول پر آنا کچھ مدد فراہم کر سکتا ہے۔
ان کے بقول نیتن یاہو کو جنگ کو جلد ختم کرنے کی کوئی ترغیب نہیں ہے۔
ورجینیا پیج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ واقعی امریکی دباؤ ہے جو فرق پیدا کرے گا۔
دوسری طرف سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں اپنے سب سے بڑے فائدے پر نظر رکھے ہوئے ہے جو کہ ایران کے خلاف اس کی حفاظت کے لیے امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ ہو سکتا ہے-
سعودی مملکت نے معمول پر آنے والی بات چیت کو معطل کر دیا ہے کیوں کہ بڑھتی ہوئی فلسطینی اموات کی تصاویر نے عرب دنیا کو مشتعل کر دیا ہے۔
ڈیووس میں بھی سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ان کا ملک اگرچہ اب بھی معمول کے معاہدے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ لیکن یہ صرف فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ ہو سکتا ہے اور یہ کہ جنگ بندی امن کا نقطۂ آغاز ہے۔
واشنگٹن ڈی سی غزہ میں جنگ بندی کے مطالبات کے خلاف ہے کیوں کہ اس کے مطابق جنگ بندی سے حماس کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملے گا۔
پیٹسی وداکوسوارا، وی او اے نیوز
فورم