صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ میں سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے ہیں اور ان کی ہلاکتوں کی تعداد 16 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
ادارے نے کہا ہے کہ حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے کے بعد سے شروع ہونے والی لڑائی میں تقریباً ہر ایک گھنٹے میں دو مائیں اپنی جان سے ہاتھ دھو رہی ہیں۔
یواین وومن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس جنگ کو، جسے شروع ہوئے اب 100 سے زیادہ دن ہو چکے ہیں، کم ازکم 3000 ہزار خواتین بیوہ ہو چکی ہیں اور گھر کی کفالت اب ان کے کندھوں پر آ گئی ہے، جب کہ کم ازکم 10 ہزار بچوں کے سروں پر ان کے والد کا سایہ باقی نہیں رہا۔
جمعے کو جاری ہونے والی عالمی ادارے کی اس رپورٹ میں صنفی عدم مساوات اور جنگ سے جانیں بچانے کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ فرار ہونے والی خواتین پر بوجھ میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہیں بار بار بے گھر ہونا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 23 لاکھ کی آبادی والے علاقے سے کم ازکم 19 لاکھ کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے جس میں 10 لاکھ کے لگ بھگ خواتین اور لڑکیاں ہیں جو پناہ اور تحفظ کی تلاش میں ہیں۔
اقوام متحدہ کی خواتین کے امور سے متعلق ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باہوس نے کہا کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے سے قبل 15 سال کی لڑائیوں کے مقابلے میں اب صورت حال ظالمانہ حد تک الٹ ہے۔ انہوں نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل غزہ اور مغربی کنارے میں لڑائیوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں میں 67 فی صد مرد اور 14 فی صد سے بھی کم خواتین تھیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور 7 اکتوبر کو اسرائیل میں یرغمال بنائے گئے تمام افراد کی فوری رہائی کے مطالبے کا اعادہ کیا۔
باہوس نے رپورٹ کے ساتھ جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کی خواتین اور لڑکیوں کی صورت حال پر آج ہم جتنا بھی سوگ منا لیں، ہمیں کل پابندیوں کے بغیر انسانی ہمدردی کی امداد فراہم نہ ہونے اور تباہی اور جنگ ختم نہ ہونے کا مزید سوگ منانا ہو گا ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ خواتین اور لڑکیاں، تحفظ، ادویات، صحت کی دیکھ بھال اور چھت سے محروم ہیں۔ انہیں فاقہ کشی اور قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے پاس اب امید باقی رہی ہے اور نہ ہی انہیں انصاف میسر ہے۔
حماس کے تحت کام کرنے والی غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس تنازع میں اب تک تقریباً 25 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 70 فی صد خواتین اور بچے ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد، جو تقریباً کل آبادی کا ایک چوتھائی ہے، بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
یواین وومن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر حماس کے حملے پر
7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1200 کے لگ بھگ افراد مارے گئے تھے اور تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ ان میں سے تقریباً 130 کو جنگ بندی کے دوران فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے آزادی مل گئی تھی، جب کہ خیال ہے کہ ابھی 100 کے لگ بھگ یرغمال حماس کی قید میں ہیں۔
باہوس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں میں حماس کی طرف سے بلاجواز جنسی تشدد کے چونکا دینے والے واقعات یواین وومن کے علم میں آئے ہیں۔ اور انہوں نے مرتکب افراد کو جواب دہ ٹہرانے، متاثرین کو انصاف دلانے اور ان کی مدد سے متعلق اقوام متحدہ کی اپیل کی حمایت کی۔
عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری لڑائیوں کے باوجود وہاں خواتین کی قیادت والی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں کیے جانے والے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ خواتین کی 83 فی صد تنظیمیں جزوی طور پر کام کر رہی ہیں اور ان کی توجہ جنگ سے متعلق ایمرجینسی نوعیت کے کاموں پر مرکوز ہے۔
لیکن یواین وومن کا یہ بھی کہنا ہےکہ غزہ کی پٹی میں امداد کے لیے گزشتہ سال کی جانے والی فنڈز کی اپیل کا صرف صفر اعشاریہ 9 فی صد ہی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی قومی یا مقامی تنظیموں کو براہ راست ملا۔
سیما باہوس نے کہا کہ غزہ میں جنگ ختم کرنے اور وہاں مزید امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ امن لانے کا وقت ہے۔ ہم تمام اسرائیلی اور فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کے مقروض ہیں۔ یہ ان کی جنگ نہیں ہے۔ انہیں لازماً اس کی مزید قیمت ادا نہیں کرنی چاہیے۔
(اس آرٹیکل کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے)
فورم