کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے سب کی نظریں اسکرین پر مرکوز تھیں جہاں تھری پیس سوٹ میں ملبوس شخص گلی میں کنچے کھیلتے بچوں کو تلقین کر رہا تھا کہ وہ گولیاں مت کھیلیں، ان کے کپڑے خراب ہو جائیں گے۔
اسی سین کے بعد انگریزی میں ایک وائس اوور آتا ہے جس میں فلم کے نام سے ملتی جلتی بات 'اسٹینڈ اپ فرام ڈسٹ اینڈ پلے کرکٹ' کہا جاتا ہے۔
یہ فلم اگر کرکٹ پر بنی ہوتی تو شاید اس پر داد دی جاتی لیکن یہ معاملہ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کی بائیوپک کا تھا جس میں ان کا کردار بچوں کو کرکٹ کھیلنے کی تلقین کرتا ہے۔
جیسے ہی فلم کا دورانیہ مکمل ہوا اور کمرے کی لائٹ آن ہوئیں، سب کی توجہ اسکرین سے ہٹ کر اس وقت کے صدرِ مملکت کی جانب مبذول ہو گئیں جنہوں نے اسے ایک اچھی کوشش قرار دے کر پروڈیوسرز کا حوصلہ بڑھایا۔
لیکن اگلے ہی لمحے 'مگر اس میں وہ بات نہیں آئی، اس میں فیلنگز (احساسات) کی کمی ہے' کہہ کر انہوں نے ان تمام ہاتھوں کو بیچ راستے میں ہی روک دیا جو پروڈیوسر کو مبارک باد دینے کے لیے آگے بڑھے تھے۔
جنرل ضیاء الحق اس فلم کا موازنہ جس فلم سے کر رہے تھے وہ برطانوی ہدایت کار رچرڈ ایٹنبرو کی فلم 'گاندھی' تھی جس کے جواب میں اس وقت کے صدرِ پاکستان محمد علی جناح پر فلم بنانا چاہ رہے تھے۔
اس فلم کا سارا خرچہ حکومتِ پاکستان نے اس لیے اٹھایا کیوں کہ اس کے ذریعے جنرل ضیاء الحق اپنے اسلامی ریاست کے خواب کو درست ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔
اگست 1988 میں ان کے طیارے حادثے میں موت کے بعد اس فلم کو ہمیشہ کے لیے ڈبے میں بند کردیا گیا اور آج بھی اس کا ذکر صرف کتابوں اور رسالوں تک ہی محدود رہ گیا ہے۔
اسٹینڈ اپ فرام دی ڈسٹ فلم بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
سن 1982 میں ریلیز ہونے والی انگلش فلم 'گاندھی' کو اگر نو اکیڈمی ایوارڈز نہ ملتے تو شاید پاکستانی حکومت کو کبھی بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کی بائیوپک بنانے کی نہ سوجتی۔ لیکن انٹرنیشنل لیول پر اس فلم کی پذیرائی نے جنرل ضیاء الحق کو مجبور کیا کہ وہ بھی اس کا جواب دیں۔
ان کے خیال میں محمد علی جناح کو جس طرح 'گاندھی' میں دکھایا گیا وہ ان کی باوقار شخصیت کی درست عکاسی نہیں تھی اور انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کا خاموش بیٹھنا اس کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔
اس فلم کو کمیشن کرتے وقت حکومتِ پاکستان نے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ دی تھی جس میں نہ صرف وہ رقم شامل تھی جس سے فلم بنانے کا سامان خریدا جانا تھا بلکہ اس میں ملوث افراد کی تنخواہ بھی اسی کا حصہ تھی۔
اس فلم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے نہ صرف کلچر منسٹری اور انفارمیشن منسٹری کی خدمات حاصل کی گئیں بلکہ پاکستان ٹیلی ویژن میں کام کرنے والے افراد سے بھی مدد لی گئی۔
لیکن جہاں رچرڈ اینٹبرو کو اُس فلم کو کامیاب بنانے کے لیے 20 سال محنت کرنا پڑی، وہیں چند ماہ کی محنت کے بعد سامنے آنے والا ڈرافٹ وہ تاثر نہ دے سکا جس کی اس سے توقع تھی۔
اس سے قبل کہ فلم میں کسی اداکار کو محمد علی جناح کے کردار میں منتخب کیا جاتا اور اس کے اہم سین فلمائے جاتے، فلم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈبوں میں بند کر دیا گیا۔
بانیٔ پاکستان پر بننے والی فلم جنرل ضیاء الحق کو کیوں پسند نہیں آئی؟
پاکستانی سنیما کے پہلے 50 سال پر لکھی جانے والی مشتاق گذدر کی کتاب 'پاکستانی سنیما: 1947 سے 1997 تک' میں وہ اس فلم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب ضیا الحق کے اپنے سیکریٹری انفارمیشن جنرل مجیب الرحمان کو اس فلم کا ٹاسک دیا تو ان کے ذہن میں صرف ایک بات تھی، اور وہ یہ کہ قائداعظم کے ذریعے اپنے نفاذِ شریعت کے فیصلے کو درست ثابت کروانا۔
اس کوشش کے لیے انہوں نے ملک بھر سے اسٹیبلشمنٹ کے حامی مفکروں اور صحافیوں کی خدمات تو حاصل کیں ہی جب کہ ڈاکیومینٹری فلمیں بنانے والوں سے بھی تجاویز طلب کیں تاکہ فلم کو انٹرنیشنل لیول پر پذیرائی ملے۔ یہی وجہ تھی کہ فلم کے پروڈیوسرز کے لیے ایک برطانوی ایڈورٹائزنگ کمپنی کو منتخب کیا گیا جس نے اسی زمانے میں دماغ کی سرجری پر بننے والی ایک فلم پر ایوارڈ جیتا تھا۔
مشتاق گزدر لکھتے ہیں کہ فلم کے بارے میں نئے پروڈیوسرز کو کیا بریفنگ دی گئی تھی اس کے بارے میں تو زیادہ نہیں معلوم لیکن اتنا ضرور اندازہ تھا کہ اس فلم میں مارشل لا کی مخالفت پر کوئی بات نہیں کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ فلم میں قائدِ اعظم کو گاندھی سے بڑا لیڈر دکھایا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ بانیٔ پاکستان کا برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک بنانے کا مقصد ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا، تاکہ جنرل ضیاء الحق کے اقدامات کو درست ثابت کیا جا سکے۔
فلم کی اسکرپٹ پاکستان میں تیار ہوئی جس کے بعد اسے برطانوی کمپنی کے حوالے کردیا گیا۔ جب فلم کی شوٹ پر جانے سے پہلے اس کی پریزنٹیشن صدرِ پاکستان کو دکھائی گئی تو اس میں محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے لے کر مغل دور تک مسلمانوں کی بادشاہت کا بھی ذکر ہوا جسے محمد علی جناح کے ساتھ کسی نہ کسی طرح جوڑ کر پیش کیا گیا۔
مشتاق گزدر لکھتے ہیں کہ یہاں پر وہ سین بھی آیا جس میں وائس اوور کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ قائد اعظم بچوں کو کنچے کی جگہ کرکٹ کھیلنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سین سے بانیٔ پاکستان کو جلد ہٹا کر پروڈیوسرز نے عقل مندی کا مظاہرہ کیا کیوں کہ اگر وہ بچے کرکٹ کے لیے سامان مانگ لیتے تو وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
اس فلم میں جہاں کئی ایسے واقعات فلمائے گئے جن کا قائد اعظم کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا وہیں سن 1919 میں جلیاں والا باغ میں ہونے والے فسادات کو بھی اس کا حصہ بنانے کی تجویز تھی کیوں کہ قائد اعظم اس احتجاج کے حامی نہیں تھے۔
مشتاق گزدر کے بقول اس فلم میں قائداعظم کے کردار کو فیملی سے الگ تھلگ اور دوستوں سے دور دور دکھایا جانا تھا۔ فلم کے دوران بتانا تھا کہ بانیٔ پاکستان نے اردو بولنا اور شیروانی زیب تن کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا تاکہ ان کی بات برصغیر کے مسلمان سمجھ سکیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ پر قائد اعظم کا کنٹرول اور ایک نیا ملک حاصل کرنے کی جستجو بھی اس فلم میں دکھائی جانا تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ گاندھی کے بعد ان کا مشن آگے بڑھانے کے لیے نہرو، راج گوپال اچھریا اور پاٹیل ہیں لیکن قائد اعظم ان سب کے خلاف اکیلے ہی کھڑے تھے۔
مصنف نے یہ بھی لکھا کہ اس بات کا مقصد یہ باور کرنا تھا کہ مسلم امہ کی ذمہ داری صرف ایک شخص کے پاس ہو تو ہی ٹھیک ہے اور جنرل ضیاء الحق کا بھی یہی مقصد تھا جو وہ اس فلم کے ذریعے حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔
مشتاق گزدر کے مطابق اس فلم میں قراردادِ پاکستان کے وقت پیش کی جانے والی قائد اعظم کی تقریر کا تو ذکر تھا۔ البتہ قراردادِ مقاصد کی تقریر کو شامل نہیں کیا تھا، جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان صرف مسلمانوں کا ملک نہیں بلکہ یہاں رہنے والے تمام افراد برابر ہیں۔
فلم کے آخر میں دکھایا جانا تھا کہ جب قائد اعظم سے ایک امریکی صحافی نے دریافت کیا کہ ان کا ملک سیکولر ہوگا یا نہیں تو انہوں نے اس سوال کو بے تکا قرار دے دیا تھا۔
جب اس فلم کی پریزنٹیشن جنرل ضیاالحق کو دکھائی گئی تو وہ انہیں زیادہ متاثر نہ کرسکی۔ انہوں نے فلم کو دوبارہ ٹھیک طرح سے بنانے کا کہا تاہم ان کی موت کی وجہ سے اس پر مزید کام نہ ہو سکا۔
بانیٔ پاکستان پر بننے والی واحد فلم جناح 1998 میں ریلیز کی گئی جس میں معروف ہالی وڈ اداکار کرسٹوفر لی نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم 29 جنوری 2024 کو برطانیہ اور امریکہ میں دوبارہ ریلیز کی جا رہی ہے۔
اس فلم کی ہدایات جمیل دہلوی نے دیں جب کہ اسے اکبر ایس احمد نے لکھا ہے جو ایک ڈپلومیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف بھی ہیں۔
اپنی کتاب 'جناح: پاکستان اینڈ اسلامک آئیڈینٹٹی' میں اکبر ایس احمد لکھتے ہیں کہ ضیاء الحق کی کمیشن کردہ فلم کی پریزنٹیشن اس قدر کمزور تھی کہ اسے حکومت نے ہمیشہ کے لیے غائب کرنا بہتر سمجھا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ یہ فلم پاکستان کی تاریخ کو مسخ کر رہی تھی جس کی وجہ سے اس کا نہ بننا ہی بہتر تھا۔
فورم