خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی ہے۔ تحریکِ انصاف نے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کا اعلان کیا ہے۔
خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے منگل کو اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی جس کے بعد انہوں نے زبانی مختصر فیصلہ سنایا۔ اس موقع پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا الزام تھا جب کہ دونوں سیاست دان ان الزامات کی ترید کرتے رہے ہیں۔
بانئ تحریکِ انصاف عمران خان اور نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کو ایسے موقع پر سزا سنائی گئی ہے جب عام انتخابات میں صرف نو دن باقی رہ گئے ہیں جب کہ تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ اس کا بدلہ آٹھ فروری کو ووٹ کے ذریعے لیا جائے گا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سات مارچ 2022 کو واشنگٹن ڈی سی سے موصول ہونے والے سائفر کو قومی سلامتی کا خیال کیے بغیر ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔
اس الزام کی بنیاد پر 15 اگست 2023 کو عمران خان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔ پی ٹی آئی کا مؤقف رہا ہے کہ سائفر بھیجنے کا مقصد عمران خان کی حکومت کو ہٹانا تھا۔
اس کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی اور وزارتِ قانون کی طرف سے عمران خان کے جیل ٹرائل کے لیے نوٹی فکیشن بھی جاری کیا گیا۔
خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 29 اگست کو پہلی مرتبہ سائفر کیس کی سماعت کی تھی۔
فیصلے کے خلاف اپیل کا اعلان
تحریکِ انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت کے جج کے فیصلے کو منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا اور عدالت سے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی جائے گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر تنقید کی اور کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خصوصی عدالت نے انصاف کے تمام تقاضے پامال کیے اور ان کی دھجیاں اڑائیں۔
انہوں نے کہا کہ سزا اس وقت ہوتی ہے جب کوئی جرم ثابت ہو۔ ابھی جرم ثابت نہیں ہوا اور ٹرائل مکمل ہوئے بغیر سزا سنا دی گئی۔ ان کے بقول خصوصی عدالت کا فیصلہ اسی طرح ہے کہ گھر میں عدالت لگائیں اور خودی اس پر جرح کرنے کے بعد فیصلہ سنا دیں۔
بیرسٹر علی ظفر کے مطابق گزشتہ روز سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا کو کمرۂ عدالت میں آنے نہیں دیا گیا اور رات بارہ بجے تک سماعت ہوتی رہی۔ اور آج فیصلہ سنا دیا گیا۔
عمران خان کا اپنی صفائی میں بیان
خصوصی عدالت میں عمران خان نے اپنی صفائی میں 342 کا بیان ریکارڈ کرایا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے سرکاری معاون (اے ڈی سی) میں سے کسی ایک نے سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایما پر سائفر چوری کیا۔
انہوں نے کہا کہ سائفر وزیراعظم آفس میں تھا جس کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ملٹری سیکریٹری، پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری پروٹوکول پر آتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندہ عاصم علی رانا کے مطابق عمران خان نے کہا کہ ان کے ساڑھے تین سالہ دورحکومت کے دوران یہ واحد دستاویز ہے جو وزیراعظم آفس سے گم ہوئی۔
عمران خان کے مطابق سائفر میں کہا گیا تھا کہ اگر وزیرِ اعظم کو نہ ہٹایا تو اس کے نتائج ہوں گے۔ البتہ انہوں نے پریڈ گراؤنڈ جلسے میں جو پیپر لہرایا تھا اس میں صرف خطرے کا ذکر کیا تھا کسی ملک کا نام نہیں لیا۔ ان کے بقول پیپر لہرانے کا مقصد جنرل باجوہ کو یہ پیغام دینا تھا کہ اگر سازش ہوئی تو تمام پلان ایکسپوز کر دیا جائے گا۔
سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت گرانے کے لیے سازش اکتوبر 2021 میں شروع ہوئی جب جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو تبدیل کیا تھا جب کہ اپریل 2022 میں ہماری حکومت گرائی گئی اور چار ماہ بعد جنرل باجوہ نے کہا کہ مجھ پر اور شاہ محمود قریشی پر سیکریٹ ایکٹ کے تحت کیس ہوگا۔
سائفر کیس میں عمران خان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جنرل باجوہ کی دھمکی کے بعد ان کے خلاف 200 مقدمات درج ہوئے جس کا مقصد جنرل باجوہ اور امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کے حوالے سے ان کا منہ بند کرانا تھا۔
خیال رہے کہ امریکہ نے عمران خان کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیا تھا۔
فورم