جمعرات کے روز صدر بائیڈن نے ریاست مشی گن کا دورہ کیا۔ اس ریاست میں عرب امریکی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور وہ اسرائیل حماس جنگ میں، بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کی حمایت پر برہم ہیں۔
جمعرات کو ہی صدر بائیڈن نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر تشدد کرنے والے اسرائیلی آبادکاروں پر پابندیاں لگانے کا انتظامی حکم جاری کیاتھا۔
وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ پابندیوں سے متعلق انتظامی حکم کی کافی پہلے منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔ انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ اسے ریاست مشی گن کے دورے اور اور وہاں آباد مسلم امریکیوں، اور ترقی پسند ڈیموکریٹس کی برہمی کے تناظر میں جاری کیا گیا۔
امریکہ کی جانب سے مغربی کنارے کے چار اسرائیلوں پر مالیاتی اور ویزے کی پابندیاں عائد کی گئیں ہیں، جن پر فلسطینیوں کے خلاف تشدد بھڑکانے اور تشدد میں حصہ لینے کا الزام ہے۔
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے جمعرات کو ایئرفورس ون میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت اسرائیلی حکومت کے عہدے داروں پر پابندیاں لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
کربی نے اس سے بھی انکار کیا کہ بائیڈن کے ایگزیکٹو آرڈر کے اجرا کا مقصد نیتن یاہو کی حکومت کے سخت گیر ارکان پر اپنی ناراضی کا اظہار کرنا ہے۔ اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر سمیت کئی ارکان پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام ہے۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد بن گویر نے مغربی کنارے کے سرحدی قصبوں کے اسرائیلی آبادکاروں سمیت اسرائیلی شہریوں کو مسلح کرنے کے لیے 10 ہزار سے زیادہ رائفلیں تقسیم کیں تھیں۔
کربی نے پابندیوں سے متعلق صدارتی ایگزیکٹو آرڈر کے حوالے سے کہا کہ یہ یوری دنیا کے لیے ایک اشارہ ہے کہ بائیڈن مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
صدر بائیڈن کی روایت رہی ہے کہ وہ جس علاقے کا دورہ کرتے ہیں، وہاں کے منتخب ڈیموکریٹک نمائندے کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن مشی گن کے دورے میں وہاں کی ڈیموکریٹک رکن کانگریس راشدہ الطلیب ان کے ساتھ نہیں تھیں۔ وہ اسرائیل کے لیے بائیڈن کی حمایت پر تنقید اور جنگ بندی کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔
ڈیٹرائٹ کے دورے میں صدر کے قافلے نے ان شاہراہوں سے گزرنے سے اجتناب کیا جہاں عرب امریکیوں نے مظاہرے ترتیب دیے ہوئے تھے ، لیکن اپنے دورے کی آخری منزل میں ان کا سامنا فلسطینی پرچم لہرانے والے اور قتل عام کے خلاف نعرے لگانے والے ایک چھوٹے گروپ سے ہو ہی گیا۔
تاہم مشی گن کی مسلم کمیونٹی کی صدر بائیڈن کے حوالے سے رائے متنوع ہے۔
ایک سابق امریکی فوجی مصطفیٰ عبداللہ رحمان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیٹرائٹ کے قریب صدر بائیڈن سیاہ فاموں کے ایک ریستوران میں کچھ دیر کے لیے رکے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے لیے بہت دکھ محسوس کر رہا ہوں۔ کیونکہ وہ مصائب اور تکالیف کا شکار ہیں۔ عبداللہ رحمان کا کہنا تھا کہ صدر دونوں فریقوں کو اس مشکل صورت حال سے نکالنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
صدر بائیڈن نے اب تک جنگ بندی کے مطالبے کے دباؤ کی یہ کہتے ہوئے مزاحمت کی ہے کہ اس سے صرف حماس کو فائدہ ہو گا۔ اب ان کی اتنظامیہ 100 سے زیادہ یرغمالوں کے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلے کے لیے چھ ہفتوں کی جنگ بندی پر بات چیت کے لیے زور دے رہی ہے۔
آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس میں تاریخ کے پروفیسر جیرمی سوری کہتے ہیں کہ 7 اکتوبر کے حملوں کے چند ہفتوں کے بعد بائیڈن واضح طور پر اسرائیل پر یہ زور دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ غزہ میں نقصانات کا دائرہ محدود کرے۔
سوری یہ بھی کہتے ہیں کہ بائیڈن نے غزہ اور دیگر جگہوں پر شہریوں کو درپیش مشکلات اور مسائل پر تشویش اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
نیویارک کی سیروکیوز یونیورسٹی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن اور بین الاقوامی امور کے پروفیسر رابرٹ مریٹ کہتے ہیں کہ انتظامیہ کے اندر تبدیلی آنے کی بات سمجھ میں آتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی سطح پر تشویش پر کوئی سوال نہ ہو۔ غزہ میں 20 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ جس نے بہت سے لوگوں کے موقف کو بدل دیا ہے۔ جس میں وائٹ ہاؤس اور ہماری اتحادی حکومتوں سمیت اور بہت سے لوگ شامل ہیں۔
جب بائیڈن ووٹروں سے ملاقات کے لیے ایک ریستوران میں گئے تو وائس آف امریکہ نے ان سے یوچھا کہ عرب امریکی کمیونٹز کے لیے ان کا کیا پیغام ہے۔
صدر نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔
(انیتا پاول، پیسٹی وڈاکسوارا، وی او اے نیوز)
فورم