رسائی کے لنکس

ٹرمپ کو صدارتی استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں، سپریم کورٹ اپریل میں دلائل سنے گی


امریکی سپریم کورٹ نے اعلان کیا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات میں مبینہ مداخلت کیس میں صدارتی استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اپریل میں دلائل سننے کے بعد کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست پلٹنے کے لیے سازش کی تھی۔ اس فیصلے نے سابق امریکی صدر کو ایک ایسے کرمنل ٹرائل کے مزید قریب پہنچا دیا تھا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

توقع ہے کہ سپریم کورٹ جون میں اسٹثنیٰ کے معاملے پر اپنا فیصلہ سنائے گی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ اس سال نومبر کے صدارتی الیکشن میں 2020 کے انتخابات کی طرح موجودہ ڈیمو کریٹک صدر جو بائیڈن کے مدِمقابل ہو سکتے ہیں۔

ایک اور ریاست میں ٹرمپ کے بیلٹ پر ہونے کی پابندی

دریں اثنا امریکی ریاست الی نوائے میں ایک جج نے ٹرمپ کو ریاست کے پرائمری مقابلے کے لیے بیلٹ میں امیدوار کی حیثیت سے شامل ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

جج نے یہ فیصلہ ٹرمپ کے چھ جنوری 2021 کو امریکی کانگریس کی عمارت پر حملے میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت کیا۔ اس سے قبل ریاستوں کولوراڈو اور مین نے بھی سابق صدر ٹرمپ پر اسی نوعیت کی پابندی لگائی تھی۔

ٹرمپ پر وفاقی عدالت میں الزام ہے کہ انہوں نے کانگریس کی طرف سے موجودہ صدر جو بائیڈن کی 2020 کے انتخابات میں جیت کی کانگریس کی جانب سے توثیق میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے جعلی ووٹرز کا استعمال کیا۔

ٹرمپ پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت کے نائب صدر مائیک پینس پر انتخابی نتائج کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالا۔

سپریم کورٹ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ وہ یہ فیصلہ کرے گی کہ کیا سابق صدر کو اپنے عہدے کے دوران سرکاری کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں فوج داری مقدمے سے صدارتی استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں اور اگر ایسا ہے تو انہیں کس حد تک استثنیٰ حاصل ہے۔

'ملک کی بہترین خدمت کے لیے استثنٰی ضروری ہے'

سپریم کورٹ کے صدارتی استثنیٰ کے معاملے سے نمٹنے کے اعلان کے بعد ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ ملک کی بہترین خدمت کے لیے ان کا استثنیٰ ضروری ہے۔

سابق صدر کا کہنا تھا کہ "ایک صدر کو یہ طے کرنے کے لیے آزاد اور کسی دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے کہ ملک کے لیے کیا صحیح ہے۔"

ماضی میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدور کو ان کے سرکاری فرائض کے حوالے سے دیوانی مقدمات سے تحفظ حاصل ہے جب کہ ٹرمپ کے قانونی مشیروں نے مسلسل دلیل دی ہے کہ اس صدارتی تحفظ کو مجرمانہ الزامات تک بڑھایا جانا چاہیے۔

تاہم یہ فرض کرتے ہوئے کہ جج ٹرمپ کے استثنیٰ کو مسترد کرتے ہیں، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا نومبر کے انتخابات سے پہلے مقدمے کی سماعت طے کی جا سکتی ہے اور اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔

کچھ ریاستوں میں اس سال کے صدارتی انتخابات میں ابتدائی ووٹنگ ستمبر میں شروع ہو گی۔

دھوکہ دہی کیس میں جرمانے کی وصولی کا فیصلہ برقرار

دریں اثنا نیو یارک کی اپیل عدالت کے ایک جج نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 45 کروڑ 40 لاکھ سے زائد کے دھوکہ دہی کیس میں عائد جرمانے کی وصولی کو روکنے سے انکار کر دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ فیصلے پر عمل درآمد روکنے کے لیے ٹرمپ کو پوری رقم کا بانڈ جمع کرانا ہو گا۔

ٹرمپ نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ انہیں واجب الادا رقم کے مقابلے میں ایک کم رقم کا بانڈ جمع کرانے کی اجازت دی جائے۔

ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے کے لیے اہل یا نہیں ؟ امریکی سپریم کورٹ میں کیس
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:02 0:00

نیو یارک ریاست کی درمیانی درجے کی اپیل کورٹ کے جج انیل سنگھ نے فیصلہ دیا کہ فیصلے پر عمل درآمد روکنے کے لیے ٹرمپ کو پوری رقم کا بانڈ پوسٹ کرنا چاہیے۔

ساتھ ہی جج سنگھ نے ٹرمپ کی کچھ درخواستیں منظور بھی کیں جن میں نیویارک کے بینکوں سے قرض لینے پر تین سال کی پابندی کو روکنا شامل ہیں۔ اس فیصلے سے ٹرمپ کو عدالتی مقدموں کے سلسلے میں ضروری بانڈ حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ٹرمپ کے وکلا کے مطابق سابق صدر ایک 10 کروڑ ڈالر کے بانڈ جمع کرانے کے لیے تیار ہیں۔

خیال رہے کہ جنوری میں نیو یارک کی ایک جیوری نے ٹرمپ کو 1990 کی دہائی میں مین ہٹن کے ایک ڈپارٹمنٹ اسٹور میں مصنف ای جین کیرول کے خلاف جنسی زیادتی کے الزام کے بعد انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرنے کے الزام میں آٹھ کروڑ 30 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

(اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG