اسرائیلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے عارضی بندرگارہ کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اسرائیل اس سلسلے میں امریکہ کی مدد کرنے کے لیے جو کچھ بھی ضروری ہوا وہ کرے گا۔
اسرائیلی عہدیدار امریکی صدر کے ان ریمارکس پر بھی خوش ہیں کہ "موجودہ بحران اس دن کے واقعات سے شروع ہوا جب 1200 لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور جو ہولو کاسٹ کے بعد مہلک ترین دن تھا۔"
لیکن اسرائیلی عہدیدار صدر بائیڈن کے اس اصرار پر خوش نہیں کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ صدر بائیڈن نے جمعرات کو اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران کہا تھا کہ وہ امریکی فوج کو ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ بحیرۂ روم میں غزہ کے ساحل پر ایک عارضی بندرگاہ کی تعمیر کے ہنگامی مشن کی قیادت کرے۔ جہاں ایسے بڑے جہاز لنگر انداز ہو سکیں جو خوراک، پانی، ادویات اور عارضی پناہ گاہیں لے کر آئیں۔
صدر بائیڈن کے منصوبے کے مطابق عارضی بندر گاہ کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر غزہ میں پہنچائی جانے والی انسانی امداد میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گا۔
بائیڈن نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ میں انسانی بحران کے حل کے لیے مزید اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ امدادی کارکنوں کو اس جنگ میں کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔
بائیڈن نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا تھا کہ مسئلے کا واحد حقیقی حل دو ریاستی حل ہی ہے۔
دو ریاستی حل مسترد
اسرائیل نے یہ کہتے ہوئے دو ریاستی حل کو مسترد کر دیا ہے کہ اس سے اسرائیل کی سیکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی اور غزہ میں سیکیورٹی کی ذمہ داری اس کے سپرد ہونی چاہیے۔
اسرائیل پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے نمورڈ نووک کہتے ہیں کہ فلسطینی اس بات سے پریشان ہیں کہ ااسرائیل غزہ پر طویل عرصے تک قبضے کی نیت رکھتا ہے۔
نووک نے کہا کہ فلسطینیوں کو اس بارے میں بہت تشویش ہے۔ وہ باور کرتے ہیں کہ غزہ پر اسرائیل کا نامعلوم مدت تک قبضہ مستقل تشدد کا سبب بنے گا۔
صدر بائیڈن کی تقریر سے صرف چند ہی گھنٹے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے رفح سمیت ہر جگہ جنگ جاری رکھنے کا اپنا عزم دہرایا۔
رفح مصر کی سرحد کے ساتھ واقع ہے جہاں جنگ سے فرار ہونے والے دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔
نیتن یاہو نے نئے فوجی افسران سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ہم مکمل فتح تک جنگ جاری رکھیں گے۔ اور اس میں رفح بھی شامل ہے۔"
اسرائیل سمجھتا ہے کہ یحییٰ سنوار سمیت حماس کے لیڈر رفح کے نیچے بنی سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں اور شاید ان کے ساتھ کچھ یرغمال بھی ہیں جو اب بھی ان کے قبضے میں ہیں۔
امریکہ جنگ بندی کے لیے کوششیں کرتا رہا ہے اور امید کرتا ہے کہ رمضان سے پہلے، جو اگلے ہفتے سے شروع ہو رہا ہے، جنگ بندی ہو جائے گی لیکن اب اس کا امکان نظر نہیں آتا۔
واضح رہے کہ حماس کی جانب سے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اب تک غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 30 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
فورم