رسائی کے لنکس

ہوسکتا ہے اسرائیل بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہو: اقوام متحدہ


غزہ کی پٹی میں کھانا تقسیم کرنے کی ایک تنظیم کے باہر بچے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ 18 مارچ 2024
غزہ کی پٹی میں کھانا تقسیم کرنے کی ایک تنظیم کے باہر بچے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ 18 مارچ 2024
  • اقوام متحدہ کے ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں کئی ہفتوں سے لوگ جانوروں کی خوراک کھا رہے ہیں اور اب ان کے پاس وہ بھی نہیں۔
  • اقوام متحدہ کے مطابق اگر خوراک کی فراہمی بحال نہ ہوئی تو روزانہ 20 سے زیادہ لوگ بھوک سے مر سکتے ہیں۔
  • خوراک کی قلت کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کا وزن اتنا کم ہے کہ وہ جی نہیں پا رہے۔

اقوام متحدہ نے منگل کو کہا کہ جنگ سے تباہ حال غزہ میں اسرائیل کی جانب سے امداد پر سخت پابندیاں اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی کارروائیوں کا مطلب بھوک کو "جنگ کے ہتھیار" کے طور پر استعمال کرنا ہو سکتا ہے، جو ایک "جنگی جرم" ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے غزہ میں بڑھتی ہوئی بھوک اور منڈلاتے ہوئے قحط کی مذمت کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ میں بھوک، فاقہ کشی اور قحط کی صورت حال اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد اور تجارتی سامان لانے اور اسے تقسیم کرنے پر بڑے پیمانے کی پابندیوں کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس صورت حال کا تعلق آبادی کے وسیع پیمانے پر بے گھر ہونے اور شہر کے اہم بنیادی ڈھانچے کی تباہی سے بھی ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ترک نے کہا کہ اسرائیل ٖ غزہ میں امداد کی ترسیل پر جس سطح کی پابندیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور جس انداز میں اس کی جنگی کارروائیاں جاری ہیں، وہ ممکنہ طور پر قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا طریقہ ہے جو ایک جنگی جرم ہے۔

ان کے ترجمان جرمی لارنس نے جنیوا میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا حتمی تعین عدالت کرے گی۔

اقوام متحدہ کے ایک عہدے دار کی جانب سے بیان غزہ میں خوراک کے تحفظ کے جائزے کے بعد سامنے آیا ہے۔

عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اگر خوراک کی فراہمی میں مناسب اضافہ نہ کیا گیا تو جنگ سے متاثرہ شمالی غزہ میں تین لاکھ فلسطینیوں کو قحط گھیر سکتا ہے۔

7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے جواب میں جس میں 1200 کے قریب لوگ ہلاک اور تقریباً 250 یرغمال بنا لیے گئے تھے، پانچ ماہ سے جاری اسرائیل کی فوجیوں کارروائیوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 32 ہزار کے قریب فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔

جب کہ 23 لاکھ آبادی کی اس پٹی کا زیادہ تر حصہ بے گھر ہے اور پناہ اور خوراک کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ زیادہ تر عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں اور شہری نظام کا ڈھانچہ منہدم ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی امور کے ادارے او سی ایچ اے کے ترجمان جینز لایرکے نے کہا ہے کہ غزہ میں قحط کا اعلان کرنے سے قبل وہاں کی صورت حال کو سخت معیارات پر پرکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شمالی غزہ میں قحط کے حالت پہلے سے ہی موجود ہے۔ وہاں لوگ کئی ہفتوں سے جانوروں کا چارہ اور پرندوں کو ڈالا جانے والا دانہ دنکا کھا کر جینے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب تو یہ چیزیں بھی کم ہوتی جار ہی ہیں۔ حقیقی معنوں میں وہاں کھانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہا۔

ترجمان نے انتباہ کیا کہ اگر غزہ میں خوراک کی فراہمی کو جلد بہتر نہ بنایا گیا تو وہاں روزانہ 20 سے زیادہ لوگ بھوک سے مرنے لگیں گے۔

عالمی ادارہ صحت کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے اس صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں نومولود بچے محض اس وجہ سے مر رہے ہیں کیونکہ ان کا وزن بہت کم ہے اور دوسرے بچے بھوک کی وجہ سے موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگ سے پہلے غزہ میں خوراک کی قلت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خوراک کا یہ بحران انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ انہوں نے خوراک کی امداد لانے کے لیے محفوظ راستہ نہ دینے کی مذمت کی۔

غزہ جنگ: 'ماؤں کے پاس بچوں کو پلانے کے لیے دودھ تک نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:56 0:00

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے سربراہ فلپ لازارینی نے غزہ کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قحط رونما ہونے میں عموماً کئی سال لگتے ہیں، لیکن یہاں ہم چار ماہ سے بھی کم عرصے میں قحط کی بات کر رہے ہیں تو یہ واضح طور پر مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا بھوک کا بحران ہے جو 22 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔

اسرائیل کا ردعمل

دوسری جانب جنیوا میں اسرائیل کے سفارتی مشن نے اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور کے عہدے دار ترک کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ ایک بار پھر اسرائیل کو اس صورت حال کا ذمہ دار ٹہرانے اور اقوام متحدہ اور حماس کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرائیلی مشن کا کہنا تھا کہ ہم پر راکٹوں کا مینہ برسائے جانے، ہمارے لوگوں کو یرغمال بنائے جانے اور حماس کے بدی پر مبنی 7 اکتوبر کے اقدام کے باوجود اسرائیل غزہ میں انسانی امداد کی سہولت فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔

بقول اسکے اسرائیل فلسطینی عوام سے نہیں بلکہ حماس سے جنگ لڑ رہا ہے۔

مشن کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں امداد کا سیلاب لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے جس میں زمینی، فضائی اور سمندری راستے شامل ہیں۔

(اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG