|
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیر کے روز غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرار داد نے اسرائیل کو امریکہ سے ناراض کر دیا ہے جس کا اظہار اس نے اپنے ایک اعلیٰ سطحی وفد کا واشنگٹن کا دورہ منسوخ کرنے کی شکل میں دیا ہے۔
اس دورے میں اسرائیلی عہدے داروں نے امریکہ کے ساتھ رفح میں حملے کے اپنے منصوبے پر تبادلہ خیال کرنا تھا، جہاں لاکھوں پناہ گزینوں کی موجودگی کے باعث سنگین انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
10 ملکوں کی طرف سے پیش کی جانے والی اس قرار داد کی ووٹنگ کے موقع پر امریکہ غیر حاضر رہا جس سے یہ قرار داد صفر کے مقابلے میں 14 ووٹوں سے منظور ہو گئی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ جنگ بندی کے لیے حماس کی قید میں موجود یرغمالوں کی رہائی کی شرط کے اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور اس کی غیر حاضری نے جنگ بندی کو یرغمالوں کی رہائی کی شرط کے بغیر منظور ہونے کی راہ ہموار کی۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے نیتن یاہو انتظامیہ کی جانب سے اپنے اعلیٰ سطحی وفد کا واشنگٹن کا دروہ منسوخ کرنے کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکام نے قرار داد کے مسودے کو ویٹو کرنے سے اس لیے اجتناب کیا کیونکہ اس میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی دونوں موجود ہیں جس سے ہمارے نظریے کی کافی حد تک عکاسی ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ امریکہ ووٹنگ سے اس لیے غیر حاضر رہا کیونکہ مسودے میں امریکہ کی تجویز کردہ ترمیم کو شامل نہیں کیا گیا تھا اور یہ کہ قرار داد میں حماس کی مذمت بھی نہیں کی گئی تھی۔
15 رکنی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی اس قرار داد میں 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے اچانک حملے میں یرغمال بنائے گئے تمام افراد کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ لیکن اسے خطے میں 9 اپریل کو ختم ہونے والے ماہ رمضان کی جنگ بندی کی شرط نہیں بنایا گیا۔
حماس نے قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے جنگ بندی کو مستقل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم قیدیوں کے تبادلے کے فوری عمل میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایکس پر شائع ہونے والے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ "اس قرارداد پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ ناکامی ناقابل معافی ہو گی۔"
ماہرین کا کہنا ہے کہ قرار داد پر ووٹنگ سے غیر حاضر رہے کا فیصلہ بائیڈن انتظامیہ اور نیتن یاہو کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے بڑے پیمانے کی جنگی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کی کثیر تعداد، غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر آبادی کا بے گھر ہونا، خوراک کی شدید قلت اور غزہ تک انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹوں سے اسرائیل کے خلاف عالمی ردعمل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے انتباہ کیا ہے کہ ضرورت کے مطابق امداد کی بحالی میں ناکامی کی صورت میں غزہ کی نصف آبادی کو قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے متعدد بار نیتن یاہو کو شہری ہلاکتیں کم سے کم کرنے اور انسانی امداد کی زیادہ فراہمی کی اجازت کے لیے کہا ہے ، لیکن اسرائیل حماس کے مکمل خاتمے تک نرمی برتنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ شمالی غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بڑے پیمانے پر کارروائیوں سے فلسطینی آبادی کا ایک بڑا حصہ مصر کی سرحد کے قریب واقع شہر رفح کے آس پاس عارضی خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہے جن کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے اور انہیں خوراک کی شدید قلت کاسامنا ہے۔
اسرائیل رفح میں بڑی فوجی کارروائی کرنا چاہتا ہے جس کے بارے میں امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اس سے ایک بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔ امریکہ سمیت عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری اسرائیل کو رفح پر حملے سے باز رکھنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن نیتن یاہو متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ حماس کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں اور اسرائیل رفح میں کارروائی کرے گا کیونکہ بقول ان کے، حماس کے جنگجو رفح میں چھپے ہوئے ہیں۔
غزہ کی ابتری کی جانب بڑھتی ہوئی صورت حال اور اسرائیل کے مسلسل انکار سے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے نیتن یاہو نے امریکہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں اسے رفح پر حملے کے اپنے منصوبے پر عمل درآمد روکنے کے لیے کہا گیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے اسرائیل کے دورے کے موقع پر اسرائیل نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ تنہا ہی کارروائی کرے گا۔
بلنکن نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اسے بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب کہ نائب صدر کاملا ہیرس نے انتباہ کیا کہ اسرائیل کو حملے کے صورت میں غیر واضح نتائج پیش آسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت، اس کے 193 رکن ممالک، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے قانونی طور پر پابند ہیں، جب کہ اکثر اوقات ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
سلامتی کونسل میں ردعمل
الجزائر کے اقوام متحدہ کے لیے سفیر، عمار بنجامع نے، جو سلامتی کونسل میں عرب ملکوں کے نمائندے ہیں، قرار داد میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر سلامتی کونسل کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس قرارداد کے ساتھ قابض اسرائیلی اقتدار کی جانب سے اس کی تعمیل کے منتظر ہیں، تاکہ وہ کسی شرط کے بغیر فلسطینی عوام کے مصائب کے خاتمے کے لیے خون بہانا بند کر دے۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے سلامتی کونسل میں کہا کہ قرار داد کی منظوری کو ایک اہم موڑ ثابت ہونا چاہیے جو غزہ میں ہماری جانیں بچانے اور ہمارے لوگوں کے خلاف سفاکانہ حملے کے خاتمے کا باعث بن سکے۔
پیر کو سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی اس قرار داد سے کچھ دیر پہلے منتخب ارکان نے قرار داد کے حتمی مسودے میں تبدیلی کرتے ہوئے اس میں جنگ بندی کے ساتھ لفظ "مستقل" نکال دیا اور اس کی بجائے یہ کہا گیا کہ رمضان کی جنگ بندی، لڑائیوں میں پائیدار بندش کی طرف بڑھنی چاہیے۔ بظاہر یہ تبدیلی امریکہ کی درخواست پر کی گئی تھی۔
اس موقع پر روس نے یہ شکوہ کیا کہ "مستقل" جنگ بندی کا لفظ کا نکالنا اسرائیل کو یہ اجازت دے گا کہ وہ ماہ رمضان کے بعد غزہ کی پٹی میں کسی بھی لمحے اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دے۔ روس نے جنگ بندی کے ساتھ لفظ "مستقل" دوبارہ شامل کرنے کے لیے ترمیم پیش کی مگر اسے منظوری کے لیے درکار 9 ووٹ نہیں مل سکے کیونکہ 11 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
جنگ شروع ہونے کے بعد سے، سلامتی کونسل نے غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال پر دو قراردادیں منظور کی ہیں، لیکن کسی بھی قرار داد میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک 32000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں دو تہائی عورتیں اور بچے ہیں۔ تاہم ان اعداد و شمار میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں کتنے جنگجو تھے۔
غزہ کو خوراک کی شدید قلت کے باعث ہنگامی نوعیت کے سنگین انسانی بحران کا سامنا ہے ۔ بھوک سے متعلق ایک عالمی گروپ نے پچھلے ہفتے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ شمالی غزہ کی طرف قحط بڑھ رہا ہے اور بڑھتی ہوئی جنگ کے ساتھ شامل ہو کر یہ صورت حال اس علاقے کی 23 لاکھ آبادی میں سے نصف کو بھوک کے دہانے پر لے جا سکتی ہے۔
(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)
فورم