|
ترکیہ کے شہر استنبول میں کئی مقامات پر میئر اکرم امام اوغلو کی کامیابی پر جشن منایا جا رہا ہے کیوں کہ انہوں نے مسلسل دوسری بار صدر رجب طیب ایردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کو بلدیاتی الیکشن میں شکست دی ہے۔
اتوار کو فتح کا جشن منانے والے ایسی ہی ایک ریلی میں شریک یونیورسٹی کے طالب علم ایجے ایرسوز کا کہنا تھا کہ’’ترک عوام بیدار ہو گئے ہیں اور انہوں نے ایسے امیدواروں کو ووٹ دیا ہے جو ملک کی معیشت، نوجوانوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘‘
ایجے ایرسوز کا مزید کہنا تھا کہ’’یہ تو صرف آغاز ہے۔ پہلی مرتبہ اے کے پی کو اتنے بڑے پیمانے پر شکست ہوئی ہے۔ خدا نے چاہا تو یہ سلسلہ آئندہ انتخابات میں بھی جاری رہے گا۔‘‘
اب تک 90 فی صد آنے والے نتائج کے مطابق استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کی ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کو واضح برتری حاصل ہے۔
اسی طرح ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ میں سی ایچ پی کے امیدوار بھاری اکثریت سے دوبارہ منتخب ہو چکے ہیں۔
ترک خبر رساں ادارے ’انادولو‘ کے مطابق صدر ایردوان کی سیاسی حریف سی ایچ پی ترکیہ کے 81 صوبوں کی 36 میونسیپلٹیز میں کام یاب ہو چکی ہے اور ایردوان کی جماعت کے مضبوط گڑھ تسلیم ہونے والے کئی علاقوں میں بھی حزبِ اختلاف کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
سی ایچ پی نے ایردوان کی جماعت کے 36 فی صد ووٹوں کے مقابلے میں 37 فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں جو ایردوان کے صدر بننے کے بعد سے گزشتہ دو دہائیوں میں اس کی سب سے بڑی کام یابی ہے۔
طیب ایردوان نے بلدیاتی انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست تسلیم کرلی ہے۔
صدارتی محل کی بالکونی سے تقریر کرتے ہوئے ایردوان کا کہنا تھا کہ عوام نے ہمیں اپنا پیغام دے دیا ہے اور اب ہم کھلے دل سے خود احتسابی کریں گے اور اپنی شکست کے اسباب کا جائزہ لیں گے۔
مبصرین کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ 70 فی صد تک افراطِ زر اور مقامی کرنسی کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر کے باعث پیدا ہونے والے معاشی حالات کی وجہ سے حکمران جماعت کی مقبولیت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔
بلدیاتی انتخاب کیوں اہم تھے؟
گزشتہ برس مئی میں صدر ایردوان کڑے مقابلے کے بعد ایک مرتبہ پھر ترکیہ کے صدر منتخب ہوئے تھے اور دو دہائیوں سے جاری ان کے اقتدار کو مزید پانچ برس کے لیے تسلسل ملا تھا۔
صدارتی انتخاب میں اپوزیشن کو شکست دینے کے بعد ایردوان اور ان کی جماعت بلدیاتی انتخاب میں ان بڑے شہری مراکز کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پر عزم تھے جو پانچ برس قبل الیکشن میں ان کے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔
مقامی حکومتوں کے اس انتخاب میں 70 سالہ صدر ایردوان کے لیے استنبول سب سے اہم معرکہ تھا کیوں کہ یہی وہ شہر ہے جہاں ایردوان پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور 1994 میں اس شہر کا میئر منتخب ہو کر انہوں نے اپنا سیاسی کریئر شروع کیا تھا۔
استنبول اور انقرہ سمیت کئی بڑے شہروں میں ایردوان کی جماعت کے مقابلے میں کامیابی نے اپوزیشن میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ کیوں کہ اپوزیشن جماعتیں گزشتہ برس کے صدارتی اور پارلیمانی انتخاب میں اے کے پی سے شکست کے بعد تقسیم اور مایوسی کا شکار تھیں۔
سی ایچ پی کے سربراہ اوزگور اوزل نے اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ووٹرز نے ترکیہ میں ایک نیا سیاسی نظام قائم کرنے کا عزم ظاہر کردیا ہے۔ لوگ اب 22 سال پرانی تصویر تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور ووٹرز نے ملک میں نئے سیاسی ماحول کا دروازہ کھول دیا ہے۔
حکمران جماعت ناکام کیوں ہوئی؟
اپوزیشن ترکیہ کے بلدیاتی انتخاب کے نتائج کو ملک میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا آغاز قرار دے رہی ہے۔ تاہم بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک نظریاتی کشمکش سے بڑھ کر معاشی حالات نے حکمران جماعت کی شکست میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
استنبول میں قائم تھنک ٹینک سے وابستہ ماہر سنان اولگن کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے حیران کُن نتائج کی اصل وجہ یہ ہے کہ ووٹرز حکمران جماعت کو اس کی معاشی پالیسیوں کی سزا دینا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آسمان کو چھوتی مہنگائی کی وجہ سے کئی ترک گھرانے خوراک جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
سنان اولگن کا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابات میں اپوزیشن کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکمران جماعت اے کے پی کے ووٹر نے خود کو ووٹنگ سے دور رکھا ہے۔
ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں اس بار ٹرن آؤٹ کم رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مختلف جماعتوں کے حامیوں نے ماضی کے مقابلے میں مختلف جماعتوں کو ووٹ دیے ہیں لیکن قومی انتخابات میں ایسا نہیں ہوا تھا اور لوگوں نے اپنی نظریاتی وابستگی کی بنیاد ہی پر ووٹ دیا تھا۔
ان کے بقول، بلدیاتی انتخاب میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشی مسائل ووٹرز کی نظریاتی وابستگی پر حاوی ہو گئے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ سے زائد تھی اور ان میں دس لاکھ سے زائد ایسے ووٹر بھی شامل تھے جو پہلی بار اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر رہے تھے۔
ترکیہ کے بلدیاتی الیکش میں مجموعی ٹرن آؤٹ 76 فی صد رہا جب کہ گزشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخاب میں ووٹنگ کی شرح 87 فی صد رہی تھی۔
ایردوان کے مضبوط مقابل کی کامیابی
بلدیاتی الیکشن میں ایک بار پھر کامیاب ہونے والے استنبول کے میئر امام اوغلو کو مستقبل میں ممکنہ طور پر صدر ایردوان کا مضبوط سیاسی مقابل خیال کیا جاتا ہے۔
اگرچہ امام اوغلو کو حالیہ الیکشن میں ان جماعتوں اور گروپس کی حمایت حاصل نہیں تھی جن کی مدد سے انہوں نے 2019 کا الیکشن جیتا تھا۔
ماضی میں ان کے اتحادی رہنے والی کرد نواز جماعت پیپلز ایکویلٹی، ڈیموکریسی پارٹی اور ترک قوم پرست جماعت آئی پارٹی نے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ اس کے باوجود امام اوغلو 50 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کام یاب رہے ہیں۔
گزشتہ برس اے کے پی کے مقابلے کے لیے سی ایچ پی کی سربراہی میں بننے والا چھ جماعتی اتحاد صدارتی الیکشن میں ناکامی کے بعد تقسیم کا شکار ہوگیا تھا۔
امام اوغلو کے مدمقابل اے کے پی کے امیدوار اور سابق وزیر مراد کوروم 40 فی صد ووٹ حاصل کرسکے جب کہ رائے عامہ کے جائزوں میں کڑے مقابلے کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا۔
سنان اولگن کاکہنا ہے کہ حالیہ نتائج نے 2028 کے صدارتی انتخاب میں امام اوغلو کو صدر ایردوان کا مضبوط حریف بنا دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امام اوغلو کے لیے الیکشن میں کامیابی اس لیے بھی تاریخی ہے کہ اس کے بعد وہ آئندہ صدراتی انتخاب کے لیے اپوزیشن کے فطری امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
صدر ایردوان نے بلدیاتی الیکشن میں اپنی جماعت کی مہم کے دوران یہ کہا تھا کہ وہ آخری بار اپنی جماعت کے حامیوں سے مدد مانگ رہے ہیں۔
مقامی اور عالمی میڈیا میں ان کے اس بیان کو اس بات کے عندیے کے طور پر دیکھا گیا کہ وہ 2028 میں اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ تاہم صدر ایردوان نے تاحال دو ٹوک انداز میں اس کا اعلان نہیں کیا ہے۔
ایردوان کے لیے بڑھتے چیلنجز
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ترکیہ میں ایک اور قدامت پرست جماعت ’نیو ویلفیئر پارٹی‘ یا وائی آر پی نے ایردوان کے حامیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے جنہوں نے ان کی معاشی پالیسیوں سے متعلق حالات کا ادراک کیا ہے۔
اسی طرح ترکیہ کے جنوب مشرق میں کرد اکثریتی علاقوں میں ڈیموکریٹک پارٹی نے کئی میونسپلٹیز جیتی ہیں۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ ان کے جیتنے والے امیدواروں کو عہدہ سنبھالنے دیا جائے گا یا نہیں۔ کیوں کہ گزشتہ برسوں میں ایردوان حکومت نے ایک کرد نواز میئرز کو مسلح کرد گروپس سے تعلق کی بنیاد پر برطرف کردیا تھا اور ان کی ذمے داریاں ریاست کے مقرر کردہ عہدے داروں کو دے دی گئی تھیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایردوان کی حالیہ الیکشن میں اگر ایردوان کی پارٹی کی حمایت میں مزید اضافہ ہوتا تو ممکنہ طور پر وہ نئے آئین کے نفاذ پر زیادہ تیزی سے بڑھتے۔
صدر ایردوان ترکیہ میں اپنی قدامت پسندانہ نظریات اور اپنے اقتدار کو 2028 میں اپنی مدت پوری ہونے کے بعد بھی طول دینے کے لیے آئینی تبدیلیوں کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے نئے آئین کی تشکیل کا حمایت بھی کرتے رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخاب کے نتائج سے نہ صرف یہ واضح ہوا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ووٹرز کا صبر جواب دے گیا ہے بلکہ وہ ایردوان کی تقسیم کی سیاست سے بھی اکتا چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق مبصرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے نتائج کے بعد نیا آئین بنانے کے صدر ایردوان کے منصوبے دم توڑ جائیں گے۔
دوسری جانب بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کو اپوزیشن جماعتوں کے حامی ترکیہ کی سیکیولر شناخت برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں۔
اتوار کو امام اوغلو کی کامیاب کا جشن منانے والی ریلی میں شامل طالب علم ایجے ایرسوز کا کہنا تھا کہ ہم اس الیکشن میں اے کے پی کو اب تک کا سب سے بڑا دھچکا دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور امید ہے کہ ہم اے کے پی کو حکومت سے باہر ہوتے بھی دیکھیں گے۔
اس ریلی میں ایک بڑا ہجوم یہ نعرے بھی لگا رہا تھا کہ ’’ترکیہ سیکیولر ہے اور سیکیولر رہے گا‘‘ اور ’ایردوان استعفیٰ دو‘‘۔
اس تحریر کے لیے خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘، ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ سے مواد لیا گیا ہے۔