|
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے خلاف پابندیوں اور اقدامات پر آواز اٹھائے اور طالبان سے خواتین کے حقوق سلب کرنے پر جواب دہی کرے۔
یہ بیان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جاری کیا گیا ہے جس میں کہا ہے کہ طالبان خواتین کو نشانہ بنانے میں مزید آگے بڑھ گئے ہیں۔ کیوں کہ اقوامِ متحدہ اور متعلقہ حکومتوں کی جانب سے افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف گزشتہ ڈھائی سال سے جاری منظم بدسلوکی پر طالبان کا احتساب نہیں کیا جا رہا۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ طالبان یکے بعد دیگرے ایسی پالیسیز اپنا رہے ہیں جو خواتین کے خلاف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے بین الاقوامی برادری نے ان سے جواب دہی نہیں کی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان سخت گیر اخلاقی اور معاشرتی قواعد نافذ کر رہے ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر حکومتیں طالبان سے جواب دہی کریں اور عالمی عدالتِ انصاف میں خواتین کے حقوق کے قوانین کے تحت مقدمہ دائر کریں۔
ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا کہ اگر افغانستان میں یہ پالیسیز جاری رہیں تو آنے والے وقت میں خواتین کے خلاف مزید سنگین جرائم ہوں گے۔
طالبان نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کی تعلیم، ملازمت اور سفر پر کئی سخت گیر پالیسیاں اور پابندیاں عائد کی ہیں جن پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے خاصی تنقید بھی ہوئی ہے۔ لیکن طالبان اپنی ان پالیسیز کو اسلامی قوانین اور شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ روز طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخندزادہ نے عید الفطر کے موقع پر ایک تقریر کی جس میں انہوں نے اپنی حکمرانی پر تنقید کرنے پر بین الاقوامی برادری کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
ہبت اللہ اخندزادہ نے یہ بھی کہا کہ وہ اسلامی قانون سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
طالبان کہتے ہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں لیکن وہ اپنی قومی پالیسیوں پر انسانی حقوق کے خدشات کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے۔
فورم