|
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ایران پر اسرائیلی حملے کا معاملہ پوری دنیا میں موضوعِ بحث ہے۔ اسرائیل کے اتحادی امریکہ اور دیگر حلیف ممالک نے ایران کے حملے کی بھرپور مذمت کی ہے جب کہ پاکستان اور بھارت سمیت کئی ممالک نے اس معاملے پر محتاط ردِعمل دیا ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ایرانی حملہ ناکام بنانے میں امریکہ نے اسرائیل کی مدد کی ہے، تاہم ایران کے خلاف مربوط سفارتی ردِعمل کا فیصلہ اتوار کو جی سیون اجلاس میں کیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ فولادی عزم کے ساتھ کھڑا ہے اور جس طرح اس نے ایران کے غیر معمولی حملوں کا مقابلہ کیا، وہ قابلِ تعریف ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں بالخصوص حالیہ ہفتوں کے دوران ایران کی جانب سے براہِ راست حملے کا خطرہ تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا میزائل دفاعی نظام متحرک ہے اور ہم دفاع اور جارحانہ دونوں طرح کے ردِعمل کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز اور عوام مضبوطی سے کھڑے ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں ایرانی مشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ شام میں اسرائیلی جارحیت کا جواب ہے۔ اب تک کے لیے یہ معاملہ ختم سمجھا جا سکتا ہے۔
ایرانی مشن کے مطابق اگر اس کے باوجود اسرائیل نے کوئی غلطی کی تو ایران کا ردِعمل اس سے بھی شدید ہو سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا ردِعمل
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایران کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اپنے بیان میں گوتریس کا کہنا تھا کہ وہ ایران کے اسرائیل پر بڑے پیمانے پر کیے گئے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔
سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ کا کہنا تھا کہ اُنہیں خطے میں تباہ کن کشیدگی کا خطرہ ہے جسے روکنے کے لیے وہ تمام فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ تاکہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کیا جائے جو مشرقِ وسطیٰ میں متعدد محاذوں پر بڑے فوجی تصادم کا باعث بن سکتی ہو۔
چین کا ردِعمل
ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملوں پر چین نے ’گہری تشویش‘ ظاہر کی ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ چین کو مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی پر گہری تشویش ہے اور وہ فریقین پر تحمل سے کام لینے پر زور دیتا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ چین عالمی برادری بالخصوص اثرورسوخ رکھنے والے ممالک کو کہتا ہے کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کریں۔
برطانیہ اور کینیڈا کو خطے میں عدم استحکام کا خدشہ
برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک نے ایران کے اسرائیل پر حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ اسرائیل کی سلامتی اور اردن اور عراق سمیت اپنے تمام علاقائی شراکت داروں کی سلامتی کے لیے پرعزم ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایرانی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا اسرائیل کے حقِ دفاع کی حمایت کرتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایران کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ وہ خطے میں امن و سلامتی کو اہمیت نہیں دیتا۔
پاکستان اور بھارت کا ردِعمل
ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اتوار کو پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملے سے خطے میں پہلے سے جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتِ حال عالمی سفارت کاری کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اس کے سنگین مضمرات کو بھی واضح کرتا ہے جہاں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی ذمے داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اب صورتِ حال کو مستحکم کرنے اور امن کی بحالی کی اشد ضرورت ہے۔ ہم تمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انتہائی تحمل سے کام لیں اور کشیدگی کم کرنے کی طرف بڑھیں۔
بھارت کا کہنا ہے کہ اسے ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر تشویش ہے جو مغربی ایشیا کے امن اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ "ہم چاہتے ہیں کہ فوری طور پر کشیدگی میں کمی ہو، تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور تشدد سے ہٹ کر سفارت کاری کا راستہ اپنایا جائے۔ ہم اس صورتِ حال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ خطے میں سیکیورٹی اور استحکام لایا جائے۔"
جرمنی، اسپین، یورپی یونین، ڈنمارک اور جنوبی امریکہ کے مختلف ممالک نے بھی ایرانی حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کشیدگی میں کمی لانے پر زور دیا ہے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم