|
پاکستان کے لیے جرمنی کے سفیر کو اپنی اس تقریر کے دوران احتجاج کرنے والوں کی جانب سے ردعمل اور سوشل میڈیا میں شدید تنقید اور نکتہ چینی کا سامنا ہے، جو انہوں نے انسانی حقوق کی ایک کانفرنس میں پچھلے دنوں لاہور میں کی تھی۔ اس کانفرنس کی کارروائی براہ راست نشر کی جا رہی تھی۔
ہوا کچھ یوں کہ جب جرمن سفیر الفرڈ گرینس نے انسانی حقوق پر اپنی تقریر شروع کی تو حاضرین میں سے ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’معاف کیجئے گا سفیر صاحب۔ میں اس دیدہ دلیری پر حیران ہوں کہ آپ یہاں انسانی حقوق پر بات کر رہے ہیں جب کہ آپ کا ملک فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کے ساتھ سفاکانہ برتاؤ کر رہا ہے‘۔
اس موقع پر حاضرین میں سے کئی ایک نے’آزاد فلسطین‘ اور’ دریا سے سمندر تک‘ کے نعرے لگائے اور تقریب میں موجود بہت سے لوگ نوجوان کی حمایت میں اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
جرمن سفیر اس سوال پر برہم ہو گئے اور انہوں نے شور مچانے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے غصے سے کہا کہ ’اگر آپ چیخنا چلانا چاہتے ہیں تو باہر نکل جائیں۔ آپ وہاں چیخ سکتے ہیں کیونکہ چیخنا چلانا کوئی بحث نہیں ہے‘۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ’اگر آپ بحث مباحثہ کرنا چاہتے ہیں تو آئیں ہم اس پر بات کریں گے، لیکن چیخیں چلائیں نہیں کیونکہ چیخنا کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔ آپ کو شرم آئی چاہیے‘۔
اس موقع پر کانفرنس کے منتظمین نے احتجاج کرنے والوں کو باہر نکال دیا تاکہ جرمن سفیر الفرڈ گرینس اپنی تقریر مکمل کر سکیں۔
لیکن کانفرنس کے بعد بھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ جرمن سفیر کے جملے، جن کی ویڈیو ریکارڈنگ ہو رہی تھی، تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے جس نے پاکستان میں انسانی حقوق کے کئی سرگرم کارکنوں، سیاست دانوں اور صحافیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی اور انہوں نے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے جذبات کا اظہار شروع کر دیا۔
اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر کے ایک سابق سینئر فیلو عزیر یونس نے مختصر پیغام رسانی کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ’جرمن سفیر چیخنے چلانے کے متعلق مائیکروفون پر چیخ رہے تھے’۔
اپنی پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’جرمن سفارت کاری کے لیے یہ کوئی اچھا منظرنامه نہیں ہے۔ اس طرح کی قطع کلامی اب معمول بن جائے گی اور دنیا کے جنوبی حصے میں مغربی ممالک کے نمائندے اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں، کیونکہ وہ لوگوں کو انسانی حقوق کے بارے میں لیکچر دیتے ہیں‘۔
پاکستانی میڈیا کے ایک صحافی غلام عباس شاہ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا، ’جناب سفیر، کیا آپ اپنے ملک میں کسی شخص کو اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرنے پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ باہر نکل جاؤ‘۔
ایک پاکستانی تاریخ دان، انسانی حقوق کے کارکن اور سیاست دان عمار علی جان نے ایکس پر اپنی تبصرے میں لکھا، ’ پاکستان میں جرمنی کے سفیر پاکستانیوں کو آزادی اظہار کے بارے میں لیکچر دے رہے ہیں، جب کہ ان کے اپنے ملک میں حکومت نے غزہ پر کسی بھی طرح کے بحث مباحثے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔۔۔ تقریر کے دروان بولنے والے طلبہ کو گھسیٹا اور مارا پیٹا گیا۔‘
تقریب کے منتظمین نے وائس آف امریکہ کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ تقریب کے دوران نعرے بازی کرنے والوں کو مارا پیٹا گیاتھا۔
سوشل میڈیا کی کچھ بااثر شخصیات نے جرمن سفیر پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل پر پاکستانیوں سے معافی مانگیں۔
ایکس پر صحافی سمیرا خان نے اپنے تبصرے میں لکھا، ’ میزبان ملک کے عوام کے ساتھ سفارتی تعلقات اس طرح سے نہیں بنائے جاتے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے آپ کے احترام کے معیار سے ہمیں دھچکا لگا ہے۔ آپ کو ہمارے عوام سے معافی مانگنی چاہیے‘۔
غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ، 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر عسکری گروپ حماس کے ایک اچانک اور بڑے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس میں اسرائیل کے مطابق 1170 افراد ہلاک اور 250 کے لگ بھگ یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ جن میں سے 129 اب بھی غزہ میں حماس کی قید میں ہیں۔
دوسری جانب غزہ کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جوابی کارروائی سے، غزہ کی پٹی میں 34 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں دو تہائی عورتیں اور بچے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ہزاروں جنگجو بھی شامل ہیں۔
پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطینی ریاست کے معاملے پر اس کے پاس اسرائیل کے ساتھ بات چیت کا کوئی براہ راست ذریعہ نہیں ہے۔
(ایاز گلِ، وی او اے نیوز)
فورم