|
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری احتجاجی لانگ مارچ میں شریک قافلے موسم کی خرابی کے باوجود راولاکوٹ شہر پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب موبائل انٹرنیٹ سروسز بدستور معطل ہیں۔
لانگ مارچ منظم کرنے والی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے درمیان راولاکوٹ میں مذاکرات بھی شروع ہو گئے ہیں۔
مذاکرات میں حکومت کی جانب سے چیف سیکرٹری اور کمشنر راولا کوٹ جب کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے متعدد رہنما شریک ہیں۔
راولاکوٹ میں موجود صحافی حارث قدیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مذاکرات کمشنر آفس راولاکوٹ میں جاری ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا مذاکرات کے نتائج کے منتظر ہیں تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کر سکیں-
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاج اور مظاہرے تیسرے روز بھی جاری رہے۔ گزشتہ شب کوٹلی میں جرائی کے مقام پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان ایک بار پھر تصادم ہوا جس میں پولیس کے ایک ایس پی اور ایک تحصیل دار سمیت متعدد اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پر تشدد احتجاج اور مظاہروں کے بعد موبائل انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی ہے۔ مظفر آباد میں رینجرز تعینات کرنے کی رپورٹس بھی موصول ہو رہی ہیں۔
اتوار کی صبح لانگ مارچ میں شامل قافلوں نے کوٹلی سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور تتہ پانی کے راستے ضلع پونچھ کی حدود میں داخل ہوئے ہیں۔ تاہم اتوار کی صبح سے کسی مقام پر بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔
لانگ مارچ کے شرکا کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے مقامی انتظامیہ نے پولیس کی مدد سے کئی مقامات پر سڑکوں پر مٹی ڈال کر انہیں بند کر دیا ہے۔
کئی مقامات سے رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ لانگ مارچ کے شرکا نے متعدد مقامات پر رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھنے کے لیے راستے کلیئر کیے ہیں۔
آخری اطلاعات موصول ہونے تک قافلے ضلع پونچھ کے شہر ہجیرہ پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔
موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل
احتجاج اور پر تشدد مظاہروں کے بعد حکومت نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے کئی شہروں میں موبائل انٹرنیٹ کی سروسز معطل کر دی ہیں۔
انٹر نیٹ سروسز کی بندش کے حوالے سے حکام نے سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
رینجرز کی تعیناتی کی اطلاعات
اتوار کی صبح رینجرز کی ایک درجن سے زائد گاڑیاں کوہالہ کے راستے دارالحکومت مظفرآباد میں داخل ہوئی ہیں۔
حکومت اس حوالے سے کسی بھی قسم کی تفصیلات بتانے سے گریز کر رہی ہے۔
اس سے قبل پیرا ملٹری فورسز سے متعلق حکومت نے بتایا تھا کہ انہیں صرف غیر ملکیوں اور حساس تنصیبات کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔
کشمیر میں مظاہرین کی ایک بڑی تعداد لانگ مارچ کی صورت میں بجلی کی قیمتوں میں کمی اور گندم کے آٹے کی قیمت پر سبسڈی کی فراہمی کے مطالبات کے ساتھ دارالحکومت مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کر رہی ہے۔
رکاوٹیں ہٹانے کا سلسلہ جاری
احتجاج کا یہ سلسلہ گزشتہ روز شروع ہوا تھا۔ دو روز سے جاری احتجاج اب پر تشدد شکل اختیار کرچکا ہے جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور کئی درجن مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔
بجلی کی قیمتوں میں کمی اور گندم کے آٹے کی قیمت پر سبسڈی کی فراہمی کے مطالبات پر احتجاج کو منظم کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں پولیس نے کئی درجن مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔
گزشتہ روز شروع کیے گئے لانگ مارچ کے شرکا کشمیر کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مارچ کے شرکا پولیس کی طرف سے جگہ جگہ کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
ایک پولیس افسر کی ہلاکت
مظفرآباد میں مرکزی پولیس کنٹرول روم کے مطابق میرپور کے قریب اسلام گڑھ میں مظاہرین نے پولیس پر مبینہ طور پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا۔
کنٹرول روم کا دعویٰ ہے کہ فائرنگ سے کئی اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں
سوشل میڈیا پر ایسی کئی غیر مصدقہ ویڈیوز زیرِ گردش آئی ہیں جن میں پولیس اہلکار مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں۔
پولیس کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکا پر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔
مظاہرین نے بھی پولیس پر جوابی پتھراؤ کیا ہے جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات
مظفرآباد سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں ایک نوجوان پولیس سے بچنے کی کوشش میں سڑک سے 100 فٹ نیچے دریائے نیلم میں جا گرا۔
پولیس ذرائع کے مطابق اس نوجوان کو شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا۔
اس کے علاوہ مظفرآباد میں ہی ایک کم عمر بچے کو بھی شدید زخمی حالت میں لایا گیا۔
اس بچے کو مبینہ طور پر پولیس کی جانب سے پھینکا گیا آنسو گیس کا شیل لگا۔
’پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں زخمی اسپتال لائے گئے‘
کوٹلی کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نصراللہ صادق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسپتال میں 50 کے قریب زخمی لائے گئے جن میں سے زیادہ تعداد پولیس اہلکاروں کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ تین افراد ایسے بھی لائے گئے جن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔
ان کے بقول باقی افراد کے جسم کے مختلف حصوں پر زخمی آئے ہیں۔ تاہم ان سب کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
کئی درجن افراد کی گرفتاری کا الزام
جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ مظفرآباد میں 36 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
کمیٹی نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ پولیس نے 60 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
تاہم ڈپٹی کمشنر مظفرآباد ندیم جنجوعہ نے ابھی تک صرف 28 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
قیادت کو گرفتار کیا گیا ہے: جوائنٹ ایکشن کمیٹی
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ترجمان فیصل جمیل کشمیری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مظفرآباد سے 90 کے قریب مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے جب کہ پولیس کے تشدد سے 34 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ باقی اضلاع سے بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔
ان کے بقول جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میرپور، ڈھڈیال اور بھمبر کی ساری قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس افسر کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار
میرپور میں پولیس افسر کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فیصل جمیل کشمیری کا کہنا تھا کہ مختلف جگہوں پر جو تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں وہ افسوس ناک ہیں۔
ان کے مطابق جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے تمام ذمہ داران کو ہمیشہ کی طرح پر امن جدوجہد کرنے کی تلقین کی ہے۔
وزیرِ اعظم کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب رات گئے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم چوہدری انوار الحق نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی دعوت دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں جائز حد تک سبسڈی دینے کو تیار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی پہلے دن سے کوشش ہے کہ شہریوں کو ریلیف دیا جائے۔
وزیرِ اعظم کے مطابق عوامی ایکشن کمیٹی سے جو معاہدہ ہوا تھا ہم خود کو اس کا پابند سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت کوئی غیر سیاسی فیصلہ نہیں کرے گی۔ عوام پر طاقت کے استعمال سے گریز کیا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ ابھی تک صبر اور تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
حکومت کا مظاہرین پر مسلح ہونے کا الزام
اس سے قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے میرپور میں پولیس افسر کی ہلاکت کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عوامی تحریک اب مسلح تحریک بنتی جا رہی ہے۔
مظفرآباد میں پریس کانفرنس کے دوران حکومت کے ترجمان اور وزیرِ خزانہ ماجد خان نے کہا تھا کہ پر تشدد واقعات قابل قبول نہیں۔ ریاست کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کے بقول حکومت نے اب تک تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ پر امن خطے کے امن کو تہہ وبالا کر کے نہ صرف شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کی گئی ہیں بلکہ سیاحت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کا حکومتی رویے پر تحفظات کا اظہار
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ اپنائے گئے رویے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مظاہرین کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔
پیپلزرٹی کے سربراہ چوہدری محمد یاسین نے ایک بیان میں سوال اٹھایا کہ اگر گلگت بلتستان میں آٹا سستا ہو سکتا ہے تو (پاکستان کے زیرِ انتظام) کشمیر میں کیوں نہیں ہو سکتا؟
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی عوام پر طاقت کے استعمال کو یکسر مسترد کرتی ہے۔
کشمیر میں احتجاج شروع کب ہوا؟
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاج کا سلسلہ گزشتہ ایک سال سے جاری ہے،
اس دوران حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں تاہم یہ مذاکرات نتیجہ خیز نہیں رہے۔
گزشتہ برس مئی سے شروع ہونے والی اس تحریک کے دو بڑے مطالبات ہیں جن میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دریاؤں سے پیدا ہونے والی بجلی ضرورت کے مطابق پیداواری لاگت پر واپس مقامی آبادی کو فراہم کرنے اور گندم کے آٹے کی قیمتوں پر گلگت بلتستان کے طرز پر سبسڈی دینے کے مطالبات شامل ہیں۔
دیگر مطالبات میں بیورو کریسی اور اشرافیہ کی سرکاری مراعات میں کمی، منتخب بلدیاتی نمائندہ کو ترقیاتی فنڈز کی منتقلی، کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی بہتری، طلبہ یونین کی بحالی، کشمیر بینک کو شیڈولڈ بینک قرار دینے اور منگلا ڈیم پر رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل جیسے مطالبات شامل ہیں۔
احتجاجی تحریک کے دبانے کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزی
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی گزشتہ ہفتے شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس تحریک کے اوائل میں حکومت کی جانب سے اسے دبانے کے لیے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں' کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین اور پولیس میں تصادم کے دوران کئی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا-
یہ بھی کہا گیا ہے کہ احتجاج پر غداری اور بغاوت جیسی دفعات کے تحت کم از کم چار مقدمات درج کر کے 53 شہریوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
’حکومت نے مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں لیا‘
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق حکومت نے ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اس لیے انہیں دوبارہ احتجاج کی کال دینا پڑی۔
رواں سال پانچ فروری کو دی گئی احتجاج کی کال عدالت کے حکم پر واپس لینا پڑی تاہم اس دوران حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت حکومت نے بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی کے مطالبے کو چھوڑ کر دیگر تمام مطالبات کو تسلیم کر لیا تھا۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق معاہدے کے مطابق مطالبات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا جس کے باعث جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر 11 مئی کے روز احتجاج اور مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دی۔
پیرا ملٹری فورس کی تعیناتی
اس احتجاج سے چند روز قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے وفاقی حکومت کو خط لکھ کر پیرا ملٹری فورسز کے دستے طلب کیے تھے۔
یہ خط سامنے آنے پر حکومت پر شدید تنقید شروع ہوئی تھی۔ تاہم حکومت نے وضاحت کی کہ پیرا ملٹری فورسز کے دستے بجلی کے منصوبوں پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کی سیکیورٹی کے لیے تعینات کیے گئے ہے۔ احتجاجی تحریک سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن
احتجاج شروع ہونے سے دو روز قبل ہی پولیس اور انتظامیہ نے لانگ مارچ کے منتظمین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا۔
ڈوڈیال شہر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے عہدیدران کو گرفتار کرنے کی ایک کوشش کے دوران پولیس اور مقامی لوگوں کے درمیان تصادم ہوا تھا جس میں شہریوں نے ایک اسٹنٹ کمشنر کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی کو مشتعل افراد کی جانب سے آگ لگا دی گئی تھی۔
پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے 11 مئی کے بجائے ایک روز قبل ہی احتجاج کا اعلان کر دیا تھا۔
اس کے بعد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے چھوٹے بڑے شہروں میں کاروباری مراکز بند رہے اور پہیہ جام رہا۔