|
واشنگٹن ڈی سی -- غزہ اور یوکرین جنگ کا سفارتی حل نہ ہونے کے باعث ماہرین کے مطابق رواں برس صدارتی انتخابات کے پیشِ نظر صدر بائیڈن اب ملکی ترجیحات اور مقامی مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بائیڈن نے 2020 کی انتخابی مہم جنگوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے عزم سے چلائی تھی۔
لیکن انہوں نے ہفتے کو امریکی ملٹری اکیڈمی 'ویسٹ پوائنٹ' میں اپنے خطاب کے دوران امریکی فوج کو درپیش عالمی چیلنجز پر زیادہ بات نہیں کی۔
تقریر میں بائیڈن نے کہا کہ "یوکرین میں کوئی امریکی فوجی جنگ کا حصہ نہیں ہے۔ میں اسے اسی طرح رکھنے کے لیے پرعزم ہوں۔ لیکن ہم یوکرین کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔"
اسرائیل سے متعلق صدر بائیڈن کی گفتگو کا محور غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فلسطینیوں کی مدد سے متعلق رہا۔ صدر نے اپنے خطاب میں 'ویسٹ پوائنٹ' کے گریجویٹ جنرل ایرک کوریلا کی کارکردگی کو بھی سراہا جنہوں نے اپریل میں ایرانی حملوں سے اسرائیل کو بچانے کے لیے امریکی آپریشنز کی قیادت کی تھی۔
امریکی جمہوریت کو لاحق 'خطرات' پر گفتگو
جنگوں پر زیادہ بات کرنے کے بجائے بائیڈن نے امریکی جمہوریت کو لاحق خطرات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ری پبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو ہدفِ تنقید بنایا۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جمہوری اداروں کے لیے خطرہ ہیں۔
واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بائیڈن کے اس نوعیت کے بیانات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ "ہماری جمہوریت سے متعلق کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ہر نسل کی یہ ذمے داری ہے کہ اس کا دفاع کرے۔"
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بائیڈن کا اپنے انتخابی بیانیے کو خارجہ پالیسی سے ہٹانا ایک ایسے وقت میں ایک اسٹریٹجک اقدام ہے جب غزہ اور یوکرین میں جلد ہی کسی بڑی سفارتی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔
یونیورسٹی آف ورجینیا کے "سینٹر فار پولیٹکس" کے ڈائریکٹر لیری سباتو کہتے ہیں کہ اگر بائیڈن کو دوسری مدت کے لیے جیتنا ہے تو ایسا ملکی مسائل کی بنا پر ہو گا نہ کہ بین الاقوامی مسائل پر۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن کو اس سال کے صدارتی انتخاب میں امریکہ کی ایسی کلیدی ریاستوں میں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جو کسی پارٹی کی طرف بھی جھک سکتی ہیں۔
لہذا، سباتو کے بقول بائیڈن کو ایسے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو ان کی ڈیمو کریٹک پارٹی کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہوں۔
بائیڈن نے حالیہ ہفتوں میں انتخابی مہم میں تیزی کے دوران اسقاطِ حمل سے متعلق حقوق، طلبہ کے قرض معاف کرنا، صارفین کے لیے اضافی فیسوں میں کمی اور صنعی پیداوار بڑھانے کو اپنی گفتگو کا محور بنایا ہے۔
سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی کے ایگزیکٹو نائب صدر میٹ ڈس کہتے ہیں کہ بائیڈن کے حامی واضح طور پر ان معاملات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں جنہیں وہ اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔
اُن کے بقول بائیڈن محض اندرونی امریکی مسائل پر انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔ عالمی معاملات کی اس میں مداخلت رہے گی۔
'جنگوں سے نکلنے کے خواہاں جنگوں میں پھنس گئے ہیں'
ماہرین کے مطابق صدر بائیڈن نے اپنی نظریں جنگ کے خاتمے سے ہٹ کر مشرق وسطی کے تنازع کے دو ریاستی حل اور سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں کی جانب سے اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے پر جما رکھی ہیں۔
تھنک ٹینک 'اسٹیمسن سینٹر' کی سینئر فیلو ایما ایشفورڈ کہتی ہیں کہ یقینی طور پر یہ 'ستم ظریفی' ہے کہ بائیڈن نے جنگوں سے باہر نکلنے پر اپنی مہم چلائی تھی اور اب کئی جنگوں میں پھنس گئے ہیں۔
اُن کے بقول بائیڈن کی مہم جس بیانیے کے ساتھ چلنے کی امید کر رہی تھی وہ صدر کے عالمی سطح پر جمہوریت کے محافظ کے طور پر تھا۔ ان کے بیانیے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی اندرونی طور پر اور بیرون ملک آمروں کی مخالفت شامل تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ اسرائیل کا جنگی طرزِ عمل صدر بائیڈن کے جمہوریت کے بیانیے سے ہٹ کر ہے۔ لہذٰا صدر بائیڈن کو ان تمام باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے میں ایک ناہموار صورتِ حال کا سامنا ہے۔
نتیجتاً بائیڈن نے بیرون ملک اہداف پر توجہ کم کر دی ہے حالاں کہ اپریل میں یوکرین کے لیے 61 ارب اور اسرائیل کے لیے 26 ارب ڈالر کی منظوری کو بائیڈن کی بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کو اُمید تھی کہ اس کے بعد جنگ کی شدت میں کمی آئے گی، لیکن اس میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
غزہ جنگ کے حوالے سے صدر کو اپنی پارٹی کے ترقی پسندوں کے غصے کا بھی سامنا ہے جو اسرائیل کے لیے بائیڈن کی کٹر حمایت پر مایوس ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں رائٹرز/اِپسوس کے ایک سروے کے مطابق صرف 32 فی صد امریکی بائیڈن کی غزہ میں جنگ سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کی حکمت عملی کو نامنظور کرنے والوں میں 44 فی صد رجسٹرڈ ڈیمو کریٹک ووٹرز ہیں۔
فورم