رسائی کے لنکس

وائٹ ہاؤس کا غزہ جنگ بندی کے معاہدے کو آگے بڑھانے پر زور


وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے کمیونی کیشن ڈائریکٹر جان کربی (فائل فوٹو)
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے کمیونی کیشن ڈائریکٹر جان کربی (فائل فوٹو)
  • امریکہ کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے غزہ جنگ بندی کے لیے جو تجویز پیش کی ہے، اس سے اسرائیل کو اتفاق ہے۔
  • حماس کا کہنا ہے کہ وہ مستقل جنگ بندی اور غزہ سے مکمل فوجی انخلا کے بغیر کوئی تجویز قبول نہیں کر سکتی۔
  • وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی پر عمل کی صورت میں اسرائیلی فورسز رفح، غزہ یا کسی بھی علاقے میں حماس کے رہنماؤں کو ہدف نہیں بنا سکیں گی۔

واشنگٹن -- اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں کے ثالث امریکہ، مصر اور قطر صدر بائیڈن کی طرف سے پیش کی گئی اس تجویز کو آگے بڑھانے پر زور دے رہے ہیں جس پر امریکی صدر کے مطابق اسرائیل نے گزشتہ ہفتے اتفاق کیا تھا۔

اسرائیلی رہنماؤں اور حماس کی جانب سے اس تجویز کو آگے بڑھانے سے متعلق کوئی خاص جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آ رہا۔

امریکہ نے غزہ میں چھ ہفتوں کے لیے لڑائی روکنے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد میں اضافے اور اسرائیل میں قید فلسطینیوں کے بدلے کچھ یرغمالوں کی رہائی کی تجویز دی ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے حماس کے خاتمے تک فوجی کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے جب کہ حماس کا کہنا ہے کہ وہ مستقل جنگ بندی اور غزہ سے فوجی انخلا کے اسرائیلی وعدے کے بغیر کسی معاہدے کو قبول نہیں کر سکتی۔

وائس آف امریکہ کی وائٹ ہاؤس کی بیورو چیف پیٹسی وداکوسوارا نے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی سے انٹرویو میں یہ بات جاننے کی کوشش کی کہ صدر بائیڈن نے اسرائیلیوں کے بجائے اس تجویز کا اعلان خود کیوں کیا؟ اور یہ کہ غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے میں اس وقت کیا چیلنجز درپیش ہیں؟

اس پر ترجمان نے جواب دیا کہ عوام کے سامنے یہ بتانا ضروری تھا کہ اس تجویز میں کیا ہے۔

کربی نے بتایا کہ یہ تجویز حماس کو بھیجے جانے کے فوراً بعد ضروری تھا کہ ہر کوئی دیکھ سکے کہ یہ کتنی اثر انداز ہو سکتی ہے، کوئی دیکھ سکے کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا نکل سکتا ہے جس کے دوسرے مرحلے میں لڑائی کے مستقل خاتمے کا امکان ہے۔

جان کربی کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ حماس جان لے کہ دنیا اب اس بات سے آگاہ ہے کہ اس تجویز میں کیا ہے۔

ترجمان کربی سے پوچھا گیا کہ کیا یہ حکمتِ عملی جزوی طور پر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو بااختیار بنانے کے لیے ہے تاکہ وہ اپنے دائیں بازو کے حکمران شراکت داروں کے دباؤ میں نہ آئیں؟ اور صدر بائیڈن کو کتنا یقین ہے کہ اسرائیلی اس صورت حال سے کیسے نمٹیں گے؟

جواب میں کربی نے کہا کہ "اسرائیلیوں نے یہ خود کہا ہے یہ ان کی تجویز ہے، وہ اس پر دستخط کر رہے ہیں۔ وہ اسے تسلیم کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں پوری توقع ہے کہ وہ اس تجویز کی حمایت جاری رکھیں گے کیوں کہ یہ ان کی ہے اور یہ ان کے مفاد میں ہے۔ یہ حماس کے مفاد میں بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ اس جنگ کو ختم کرنے کا راستہ ہے۔"

اس سوال پر کہ اب حماس کی جانب سے باضابطہ جواب کا انتظار کیا جائے گا، کربی نے کہا کہ دیکھیں "آگے چل کر کچھ لین دین اور بات چیت ہو سکتی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ حماس کیا جواب لے کر آتی ہے۔"

کربی سے سوال کیا گیا کہ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ حماس کی حکمرانی اور فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے اسرائیل کے مقصد کی حمایت کرتا ہے تو کیا امریکی حکومت اور اسرائیل اس سلسلے میں ایک سوچ رکھتے ہیں؟

کربی نے جواب میں کہا کہ امریکہ کو یقین ہے کہ "ہم (امریکہ اور اسرائیل) بڑے معاملات پر یکساں سوچ رکھتے ہیں۔ ہم دونوں یرغمالوں کو واپس اپنے گھروں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک ایسا غزہ دیکھنا چاہتے ہیں جس پر حماس کی حکومت نہ ہو۔ ہم ایک ایسی حماس دیکھنا چاہتے ہیں جو اسرائیل کے لیے اس طرح کا خطرہ نہ ہو جیسا کہ انہوں نے (گزشتہ سال) سات اکتوبر کو کیا تھا۔"

ترجمان نے کہا کہ یہ اسرائیل کا حق اور ذمے داری ہے کہ وہ حماس کا پیچھا کرنے کے لیے اس کے خلاف کارروائی کرتا رہے۔

وی او اے نے ترجمان سے پوچھا کہ کیا جنگ بندی کی تجویز کے مطابق پہلے مرحلے میں چھ ہفتے کی مکمل جنگ بندی کے دوران اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنا سکتا ہے؟

جواب میں کربی نے کہا کہ اسرائیل کو رفح میں اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت اس وقت تک ہے جب تک کہ جنگ بندی نہ ہو جائے۔

ترجمان نے واضح کیا کہ تجویز کے مطابق جنگ بندی کی مدت کے دوران اہداف کے خلاف کارروائیوں سمیت لڑائی ختم ہو جائے گی۔

وی او اے نے کربی سے پوچھا کہ امریکہ رفح میں اسرائیلی کارروائیوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے تو کیا یہ حقیقت میں وہی نتیجہ نہیں ہے جس کے بارے میں امریکہ چاہتا ہے کہ اسرائیل اس سے گریز کرے؟

ترجمان نے کہا کہ امریکہ کسی شہری کی ہلاکت نہیں چاہتا، چاہے وہ ٹارگٹڈ آپریشن، فضائی حملے یا اس سے کسی بڑی کسی چیز سے ہو۔

اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ شہری ہلاکتوں کی صحیح تعداد کا مطلب صفر ہلاکت ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "ہم نے رفح میں کوئی بڑی زمینی کارروائی نہیں دیکھی۔ وہ (اسرائیل) وہی کر رہے ہیں جو انہوں نے کہا تھا کہ وہ کرنے جا رہے ہیں۔ ایک ہدف کے مطابق، ایک طریقے سے حماس کے رہنماؤں کا پیچھا کرتے ہوئے۔ ہم اس پر نظر رکھیں گے۔"

وی او اے نے ترجمان کربی سے پوچھا کہ آخر بڑا زمینی حملہ ہی امریکہ کے لیے ریڈ لائن کیوں ہے جب کہ زیادہ تر ہلاکتیں فضائی کارروائیوں میں ہوئی ہیں تو ہلاکتوں کو ہی ریڈ لائن کیوں نہ بنایا جائے؟

کربی نے اپنی یہ بات ایک بار پھر دہرائی کہ ہلاکتوں کی وہی تعداد صحیح ہونی چاہیے جو صفر ہو۔

فورم

XS
SM
MD
LG