|
ہزاروں لوگوں نے جن میں زیادہ تر انتہائی قوم پرست اسرائیلی شامل تھے، بدھ کے روز یروشلم کے ایک حساس فلسطینی علاقے میں سالانہ مارچ میں حصہ لیا۔ کچھ لوگوں نے عرب مردہ باد کے نعرے لگاکر اس کشیدیگی کو مزید بڑھا دیا جو غزہ میں جاری جنگ کے سبب پہلے ہی سے موجود ہے۔
یروشلم میں جو اسرائیلی-فلسطینی تصادم کا جذباتی مرکز ہے، اسرائیل حماس جنگ کے دوران بیشتر سکون رہا ہے لیکن سالانہ مارچ جسے فلسطینی اشتعال انگیزی سمجھتے ہیں ، وسیع تر بدامنی کا سبب بن سکتی ہے، جیسا کہ تین برس قبل غزہ کی گیارہ روزہ جنگ شروع ہونے میں وہ ایک محرک بنی تھی۔
مارچ میں شامل لوگ، یروشلم کے تاریخی پرانے شہر کے دمشق گیٹ کے باہر جمع ہوئیے جو مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے اجتماع کا مرکزی مقام ہے۔ جلوس کے آغاز کے ساتھ ہی انہوں عرب اور اسلام مخالف نعرے لگائے، رقص کیا اور اسرائیلی پرچم لہرائے۔
اسرائیل کےانتہائی دائیں بازو کےقومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گور نے جو یروشلم کے حساس مقدس مقامات کے بار بار متنازعہ دورے کر چکے ہیں، کہا کہ یہ مارچ حماس کے لئے ایک پیغام ہے۔
مارچ کے آغاز پر مارچ کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم یہاں سے حماس کو ایک پیغام دے رہے ہیں کہ یروشلم ہمارا ہے، دمشق گیٹ ہمارا ہے۔ اور خداکی مدد سے مکمل فتح ہماری ہے۔ وہ غزہ کی جنگ کا حوالہ دے رہے تھے، جسکے لئے انکا مطالبہ ہے کہ حماس کی شکست تک جاری رکھی جائے۔
مارچ پر تبصرہ کرتے ہوئے حماس کے رہنما اسماعیل حانیہ نے کہا کہ ہمارے لوگ اسوقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک قبضہ ختم نہ ہو جائے اور ایک ایسی خود مختار فلسطینی مملکت قائم نہ ہو جائے، جسکا دار الحکومت یروشلم ہو۔
حماس- اسرائیل جنگ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے سے شروع ہوئی تھی۔ جو اسوقت تک جاری ہے۔
امریکہ بتدریج جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی چاہتا ہے۔ جسکا ایک خاکہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے پیش کیا ہے۔ لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک جنگ ختم نہیں کرے گا جب تک حماس کو تباہ نہ کردے۔ جب کہ حماس مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجوں کی مکمل واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
“یروشلم ڈے” اس دن کی یاد میں منایا جاتا ہے، وہ دن جب انیس سو سڑسٹھ کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تھا، جس میں پرانا شہر اور وہ مقدس مقامات شامل ہیں جو یہودی، عیسائی اور اسلام، تینوں مذاہب کے کے لئے محترم ہیں۔
اگرچہ اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دار الحکومت سمجھتا ہے لیکن مشرقی یروشلم پر اسکے قبضے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور فلسطینی جو مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دار الحکومت بنانا چاہتے ہیں، اس مارچ کو ایک اشتعال انگیزیسے تعبیر کرتے ہیں۔
بن گوور کے اصرار پر جلوس اپنے روائتی راستے سے پرانے شہر کے مسلمان علاقے میں داخل ہو کر دیوار گریہ پر پر اختتام پذیر ہوا جو مقدس ترین جگہ ہے جہاں یہودی عبادت کر سکتے ہیں۔
اس مارچ کی وجہ سے مسلمان علاقے میں فلسطینی دوکان داروں نے اپنے کارو بار بند کردئیے۔
پورے دن جوابی احتجاج کی منصوبہ بندی بھی کی گئی اور ایک اسرائیلی گروپ “ ٹیگ میئر” نے شہر کی خالی سڑکوں پر اپنے رضاکاروں کو بھیجا تاکہ وہ پرانے شہر کے عیسائی اور مسلمان مکینوں میں پھول تقسیم کر سکیں۔
اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم